سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) صدقہ فطر اور زکوٰۃ والدین اور بھائیوں کو دینا

  • 21718
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3242

سوال

(30) صدقہ فطر اور زکوٰۃ والدین اور بھائیوں کو دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میرے لئے زکوۃ اور صدقۃ الفطر کا مال اپنے ان بہن بھائیوں کو دینا جائز ہے جو ابھی کماتے نہیں ہیں جن کی تربیت میری والدہ، میرے والد کی وفات کے بعد کرتی ہیں۔ اور کیا اپنے ان بہن بھائیوں کو زکوۃ دینا جائز ہے جو چھوٹے تو نہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس مال کے محتاج ہیں اور غالبا ان کی ضرورت ان لوگوں سے زیادہ ہے، جن کو زکوۃ میں دیتا ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اپنے عزیز و اقارب کو زکوۃ دینا افضل اور بہتر ہے۔ بجائے ان لوگوں کے جو آپ کے رشتہ دار نہیں ہیں۔ کیونکہ اپنے قریبی پر صدقہ کرنا (دوہرا اجر ہے) صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔ لیکن اگر ایسے عزیز ہیں جن پر خرچ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے تو ان کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی۔ اور اگر تو ان کو اس وجہ سے زکوۃ دے کہ جو پہلے ان پر خرچ کر رہا ہے اس میں کمی ہو جائے گی تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

ہاں اگر یہ بہن بھائی جن کا آپ نے ذکر کیا ہے حاجت مند ہیں اور آپ کے مال میں اتنی گنجائش نہیں کہ آپ زکوۃ کے علاوہ ان کی مدد کر سکیں تو ان کو زکوۃ دے دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر ان پر قرض ہو تو آپ زکوۃ سے ان کا قرض ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ ایک رشتہ دار اس بات کا پابند نہیں کہ وہ دوسرے رشتہ داروں کا قرض ادا کرے تو زکوۃ کے پیسے سے قرض ادا کر دینا جائز ہے۔ حتی کہ اگر آپ کے باپ یا بیٹے پر قرضہ ہو تو آپ کے لئے جائز ہے کہ آپ اپنی زکوۃ سے اس کی ادائیگی کر دیں بشرطیکہ یہ قرض انہوں نے اپنا وہ نان نفقہ پورا کرنے کے لئے نہ لیا ہو جو آپ پر واجب تھا۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ آپ کے لئے فرض نان نفقہ کی ادائیگی سے بچنے کا ایک حیلہ بن جائےے گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:84

محدث فتویٰ

تبصرے