السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زکوۃ کے حق داران
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوۃ کن کو ادا کی جائے یا اس کے حق دار کون ہیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں خود ہی اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا الصَّدَقـٰتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـٰكينِ وَالعـٰمِلينَ عَلَيها وَالمُؤَلَّفَةِ قُلوبُهُم وَفِى الرِّقابِ وَالغـٰرِمينَ وَفى سَبيلِ اللَّهِ وَابنِ السَّبيلِ فَريضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٦٠﴾... سورة التوبة
’’صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پر چائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہ رو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘
چنانچہ اس آیت کی روشنی میں یہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں۔
پہلی قسم: فقراء وہ لوگ ہیں جن کے پاس ضروری کھانے پینے کی اشیاء نہیں ہوتی ہی۔ مگر بالکل تھوڑی مقدار میں اور وہ آدھا سال کے لئے بھی ناکافی ہیں اور اگر انسان کا یہ مقدور نہ ہو کہ وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے چھ ماہ تک خوراک مہیا کر سکے تو وہ فقیر ہے اور اس کو اتنی رقم ملنی چاہیے کہ اس کے اخراجات پورے سال کے لئے کافی ہو جائیں۔
دوسری قسم: مساکین وہ لوگ ہیں جن کے پاس چھ ماہ یا اس سے زائد مدت کے لئے مگر ایک سال سے کم مدت کے لئے نان و نفقہ موجود ہے۔ تو ان کو پورے سال کا نان و نفقہ دیا جانا چاہیے۔ اب اگر ایک آدمی جس کے پاس نقدی رقم تو نہیں ہے لیکن اس کے پاس دوسرے ذرائع آمدن ہیں یا وہ تنخواہ دار ہے یا اس کے پاس فن ہے جس کی بدولت وہ ہر ماہ رقم کما سکتا ہے اور اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے تو ایسے شخص کو زکوۃ ادا نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
(لا حظ فيها لغني ولا لقوي مكتسب)
’’(زکوۃ میں) امیر آدمی اور جو طاقتور کمانے والا ہو اس کا حصہ نہیں ہے۔‘‘
تیسری قسم: زکوۃ اکٹھی کرنے والے ملازم، یا وہ لوگ ہیں جن کی تنخواہیں حکومت ادا کرتی ہے اور یہ زکوۃ کے شعبہ میں کام کرتے ہیں، یہ زکوۃ لوگوں سے وصول کرتے، اس کے مستحق لوگوں کو دینے اور اس کا حساب و کتاب رکھتے اور اس کو محفوظ کرتے ہیں۔ تو ان لوگوں کو زکوۃ کی رقم سے ان کے کام کی مقدار کے برابر تنخواہ یا معاوضہ دیا جائے گا خواہ یہ لوگ امیر ہی کیوں نہ ہوں۔
چوتھی قسم: لوگوں کے دلوں کو مائل کرنا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلوں کے سردار یا بااثر لوگ ہیں ان کے ایمان کمزور ہیں تو ان کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے یا ان کے دلوں میں اسلام کی محبت ڈالنے کے لئے انہیں زکوۃ میں سے رقم دی جائے گی۔ تاکہ یہ اسلام کے داعی بن جائیں اور لوگوں کے لئے نمونہ بن جائیں۔ اب اگر ایک آدمی کا اسلام کمزور ہے اور وہ اپنے قبیلے کا سردار یا بااثر آدمی نہیں ہے بلکہ وہ عام لوگوں میں سے ہے تو کیا اس کو زکوۃ میں سے رقم دی جائے گی کہ اس کا ایمان مضبوط ہو جائے۔ تو اس بارے میں علمائے کرام کی دو رائیں ہیں۔
بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس کو زکوۃ کا مال دیا جائے۔ اس لئے کہ دین کی مصلحت آدمی کی بدنی مصلحت سے زیادہ اہم ہے۔ مثلا اگر مسلمان فقیر ہے تو اس کو زکوۃ دی جائے گی تاکہ وہ خوراک کا بندوبست کر سکے۔ مگر ایمان کو قوت دینے والی اور اس کو اسلام کے قریب کرنے والی چیز مقابلتا زیادہ اہم ہے اور اس کے فوائد زیادہ ہیں مگر بعض علمائے کرام کا یہ کہنا ہے کہ اس کو زکوۃ نہ دی جائے کیونکہ اس کے ایمان کا مضبوط ہونا ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ جس کا اس کی ذات سے ہی تعلق ہے۔
پانچویں قسم: زکوۃ کی رقم سے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مکاتب غلام سے مراد وہ غلام ہے جس نے اپنے مالک سے سودا کر رکھا ہے کہ وہ اس کو معینہ مبلغ ادا کر دے گا اور جب وہ مبلغ ادا کر دے تو اس کو آزادی مل جائے گی۔ شرعی اصطلاح میں ایسے غلام کو مکاتب کہا جاتا ہے۔ اب زکوۃ کی رقم سے ایسے مکاتب کی مدد کی جائے گی تاکہ اس کو جلد آزادی مل جائے تاہم ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو۔
چھٹی قسم: مقروض آدمی کو زکوۃ کی رقم سے مدد دی جا سکتی ہے جب کہ اس کے پاس قرض ادا کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو۔ چنانچہ ایسے مقروض شخص کو خواہ اس پر قرض زیادہ ہو یا کم زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ اب اگر ایک آدمی اتنا مالدار ہے کہ اس کے پاس کھانے پینے کا بندوبست ہے یا اس کی اتنی آمدنی ہے کہ اس سے اس کے گھریلو اخراجات پورے ہو رہے ہیں مگر اس پر قرض ہے جسے وہ ادا نہیں کر سکتا تو اس کو زکوۃ سے اتنی رقم دی جائے گی کہ اس سے اس کے قرضے اتر جائیں۔ اگر ایک آدمی نے کسی شخص سے قرض لینا ہو اور مقروض اس کا قرض واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے کہ آدمی اس کے قرض کو واپس نہ لے اور اس قرض کو اپنی زکوۃ سے کاٹنے کی نیت کر کے اس کو زکوۃ سے کاٹ لے۔ علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ایک شخص مقروض ہے یا اس کا بیٹا مقروض ہے کیا وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی زکوۃ دے سکتے ہیں تاکہ وہ (زکوۃ لینے والا خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا) اپنا قرض اتار لے۔ جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ (واللہ اعلم)
اور زکوۃ دینے والے کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ جس کو زکوۃ لگتی ہے اس کو زکوۃ ادا کرے، اگرچہ مقروض شخص کو پتہ نہ چلے کہ اس کی مدد زکوۃ سے کی جا رہی ہے مگر زکوۃ دینے والے کو علم ہو کہ یہ مقروض اپنا قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
ساتویں قسم: فی سبیل اللہ زکوۃ کے مال سے رقم خرچ کی جا سکتی ہے۔ فی سبیل اللہ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ مجاہدین کو زکوۃ سے رقم ادا کی جا سکتی ہے تاکہ وہ جہاد کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ زکوۃ کے مال سے جہاد کا سازوسامان (سامان حرب) خریدا جا سکتا ہے۔ شرعی علم حاصل کرنے والا طالب علم بھی فی سبیل اللہ میں آتا ہے تو شرعی طالب علم کو زکوۃ کی رقم ادا کی جا سکتی ہے تاکہ وہ کتب اور دوسری حاجات کو پورا کر سکے۔ لیکن اگر وہ امیر ہے اور اس کے پاس ذاتی اتنا مال ہے کہ اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے تو پھر اس کو زکوۃ نہ دی جائے گی۔
آٹھویں قسم: ایسا مسافر جس کا دوران سفر زادراہ ختم ہو جائے تو اس کو زکوۃ سے اتنی رقم دی جائے جو اس کو اس کے وطن پہنچا دے۔
یہ آٹھ اقسام ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ذکر کیا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ زکوۃ فرض ہے جس کو اللہ علیم و حکیم نے اپنے علم اور حکمت سے اس کے مصارف بیان کر دئیے ہیں۔ زکوۃ کی رقم سے مساجد بنانا، سڑکوں کی مرمت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کے مستحقین کی تفصیل بیان کر دی ہے اور ان کی حیثیت کو محدود کر دیا ہے۔
اگر ہم زکوۃ کی حکمت پر غور کریں اور اس کے مستحقین کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ معاشرے میں بعض لوگ ذاتی طور پر اس کے ضرورت مند ہیں اور بعض حالات میں عام مسلمان زکوۃ لینے والے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اب زکوۃ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی ادائیگی سے ایک صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب