سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(5) نماز تراویح

  • 21693
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1407

سوال

(5) نماز تراویح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز تراویح کے بارے میں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تراویح: رمضان المبارک میں نماز عشاء کے بعد باجماعت نماز ادا کرنے کو تراویح کہا جاتا ہے۔ اس کا وقت فجر کی اذان تک ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی ترغیب ان الفاظ میں دلائی ہے۔ ارشاد ہوا:

(من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه)

’’جس شخص نے رمضان میں ایمان اور طلب ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے پہلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘

صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک رات قیام فرمایا اور لوگوں کو نماز پڑھائی پھر اگلے دن لوگ زیادہ ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اکٹھے ہوئے مگر آپ نماز پڑھانے تشریف نہ لے گئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا۔ میں نے کل تمہارا شوق دیکھا، تمہیں نماز پڑھانے کے لئے آنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی، مگر مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تمہارے اوپر فرض نہ قرار دے دی جائے۔ یہ سارا واقعہ رمضان المبارک کے ماہ میں پیش آیا۔

تراویح کی سنت تعداد:

سنت یہ ہے کہ گیارہ رکعت نماز دو دو کر کے ادا کی جائے۔ اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ آپ کی رمضان المبارک میں نماز کیسی تھی تو انہوں نے فرمایا:

(مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً)(بخاری و مسلم)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔‘‘

مؤطا امام مالک میں محمد بن یوسف سے روایت ہے۔ یہ ثقہ ثبت (زیادہ معتبر) ہیں، وہ روایت کرتے ہیں سائب بن یزید سے (یہ صحابی ہیں) کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم الداری کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز پڑھائیں۔

اب اگر کوئی شخص رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زائد نماز پڑھتا ہے تو اس میں اس کے لئے کوئی حرج نہیں اس لئے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے قیام اللیل کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا دو دو رکعت پڑھی جائے اور جب کسی کو صبح ہونے کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے جو پوری نماز کو طاق بنا دے گا۔ یہ حدیث بھی بخاری اور مسلم کی ہے۔ تاہم افضل یہی ہے کہ جو چیز سنت سے ثابت ہو اسی کو اختیار کیا جائے اور اس بات کا خیال رہے کہ نماز میں ٹھہراؤ، غوروفکر اور اس میں قیام و رکوع و سجود طویل ہوں مگر ضروری ہے کہ وہ لوگوں پر مشقت کا سبب نہ بنیں۔ بعض لوگ تراویح میں بہت زیادہ جلدی کرتے ہیں۔ حقیقتا یہ خلاف شرع ہے اور اس جلدی میں اگر رکن میں یا واجب میں خلل پیدا ہو جائے تو اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔

اب ان احکامات کا عام طور پر بہت سارے ائمہ مساجد نماز تراویح میں بطور خاص اہتمام نہیں کرتے۔ ان احکامات کا اہتمام نہ کرنا درست نہیں ہے۔ امام مسجد صرف اپنی ہی نماز نہیں پڑھتا بلکہ وہ اپنی نماز کے ساتھ ساتھ دوسروں کی امامت بھی کروا رہا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی حیثیت ایک حاکم یا ولی کی بن جاتی ہے جس کو درست کام کرنے چاہئیں۔ بعض اہل علم نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ امام کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ نماز میں اتنی جلدی کرے جس سے مقتدی لوگوں سے سنت چھوٹ جائے۔ کہاں یہ بات کہ امام اتنی جلدی کرے کہ مقتدی واجب بھی ادا نہ کر سکیں۔

اہم مسئلہ:

لوگوں کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ نماز تراویح کو قائم کریں اور اس نماز کو ایک مسجد سے دوسری مسجد (حسن قراءت کے لئے) میں جانے میں ضائع نہ کر دیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کیونکہ جو شخص امام کے ساتھ نماز (یعنی تراویح) ادا کرے یہاں تک کہ امام صاحب مسجد سے روانہ ہو جائیں تو اس کے لئے رات بھر کے قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے اگرچہ وہ بعد میں گھر جا کر سو ہی کیوں نہ جائے۔

خواتین کا صلوۃ تراویح میں شرکت کرنا

خواتین کا مسجدوں میں نماز تراویح کے لئے آنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ ان کو گھر سے نکلتے وقت پردہ کا اور اپنی عزت و وقار کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ زیب و زینت کر کے اور خوشبو لگا کر نہ نکلیں اور نہ ہی ان کے گھر سے نکلنے میں کسی فتنہ کا ڈر ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:33

محدث فتویٰ

تبصرے