سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) روزوں کے احکام کے بارے میں

  • 21689
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1402

سوال

(1) روزوں کے احکام کے بارے میں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزوں کے احکام کے بارے میں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمضان المبارک کے روزوں کا کتاب اللہ و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کے اجماع سے فرض ہونا ثابت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣ أَيّامًا مَعدود‌ٰتٍ فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذينَ يُطيقونَهُ فِديَةٌ طَعامُ مِسكينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيرًا فَهُوَ خَيرٌ لَهُ وَأَن تَصوموا خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿١٨٤ شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ هُدًى لِلنّاسِ وَبَيِّنـٰتٍ مِنَ الهُدىٰ وَالفُرقانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿١٨٥﴾... سورةالبقرة

’’ے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ گنتی کے چند دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں اس گنتی کو پورا کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو شخص اپنی خوشی سے نیکی میں سبقت کرے گا تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔ تم میں سے جو شخص اسے مہینے میں مقیم ہو اسے روزہ ضرور رکھنا چاہئے۔ ہاں جو بیمار یا مسافر ہو اسے دوسروں دنوں میں یہ گنتی پوری کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے۔ سختی کرنا نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(بني الإسلام على خمس : شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وحج البيت وصوم رمضان) (متفق علیه)

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ کلمہ شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہ (معبود) نہیں ہے اور بےشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ کا ادا کرنا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘

اور صحیح مسلم میں آخری الفاظ یوں ہیں:

(وصوم رمضان وحج البيت)

(یعنی روزوں کو حج پر مقدم کیا)۔

رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا

تمام مسلمان رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے قائل ہیں۔ جو شخص مسلمان ہو کر رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا انکار کرے وہ مرتد اور کافر ہے۔ اس کو توبہ کرنی چاہیے اگر وہ توبہ کر لے، رجوع کر لے اور ان کی فرضیت کا اقرار کرے تو ٹھیک ہے ورنہ (مسلمان ہو کر انکار کرنے والے) اس کافر کر قتل کر دیا جائے۔

رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نو مرتبہ رمضان کے روزے رکھے۔ رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر جو عاقل اور بالغ ہو، فرض ہیں۔

روزے کافر پر فرض نہیں ہیں اور اگر وہ روزے رکھے تو ان کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ اسی طرح روزے بچوں پر بھی فرض نہیں تا آنکہ وہ بالغ ہو جائیں یا ان کی عمر پندرہ سال ہو جائے یا اس کی زیر ناف بال نکل آئیں یا احتلام کے ذریعہ اس سے منی نکل آئے یا اس کے علاوہ جو بھی بلوغت کی علامت ظاہر ہو۔ اسی طرح لڑکیوں پر بھی بلوغت سے قبل روزے فرض نہیں ہیں اور بلوغت کو پہچاننا عام لوگوں میں معروف ہے۔ لہذا روزوں کی فرضیت مرد اور عورت پر بلوغت کے بعد ہی ہے لیکن بچوں کو روزے رکھوائے جائیں تاکہ وہ بچپن سے ہی اس کے عادی ہو جائیں تاہم اس بات کا بھی خیال رہے کہ ان کی صحت کے لئے مضر نہ ہوں (یعنی بہت چھوٹی عمر کے بچوں پر جبر کر کے روزے نہ رکھوائے جائیں)۔ اسی طرح جو شخص پاگل ہے، اس کا دماغ خراب ہے، مجنون ہے تو اس پر روزے فرض نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک شخص اتنا بوڑھا ہو گیا ہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کر سکتا تو اس پر بھی نہ روزے فرض ہیں اور نہ روزوں کے بدلہ میں کسی مسکین کو کھانا کھلانا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:11

محدث فتویٰ

تبصرے