السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو مریض تھا پھر اس پر رمضان کا مہینہ بھی آیا مگر وہ روزہ نہ رکھ سکا اور رمضان کے بعد انتقال کر گیا کیا اس کی طرف سے روزوں کی قضا کی جائے گی یا مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلمان اگر رمضان کے بعد بیماری کی حالت میں انتقال کر جائے تو اس روزوں کی قضا اور مساکین کو کھانا کھلانا نہیں ہےکیونکہ وہ شرعاً معذور ہے اسی طرح مسافر اگر حالت سفر میں یا سفر سے واپس آتے ہی انتقال کر جائے تو اس پر بھی روزوں کی قضا اور مسکینوں کو کھانا کھلانا نہیں ہے کیونکہ وہ شرعاً معذور ہے۔
البتہ وہ مریض جس نے شفایاب ہونے کے بعد روزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی، پھر انتقال کر گیا یا وہ مسافر جس نے واپس آنے کے بعد روزوں کی قضا کرنے میں سستی برتی پھر انتقال کر گیا ایسے لوگوں کے اقرباء کو چاہیئے کہ وہ ان کی طرف سے روزوں کی قضا کریں ۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جو شخص انتقال کر گیا اور اس کے ذمہ روزہ تھا تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے۔‘‘ (متفق علیہ)
لیکن اگر ان کی طرف سے کوئی روزہ رکھنے والا نہ ہو تو ان کے ترکہ میں سے ان کے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو نصف صاع جو تقریباً ڈیڑھ کلو ہوتا ہے کھانا دینا ہو گا جیسا کہ عمر رسیدہ (بوڑھے )اور دائمی مریض کی طرف سے دیا جاتا ہے جیسا کہ اس کی تفصیل سوال نمبر 9 کے جواب میں گزر چکی ہے۔
اسی طرح حیض اور نفاس والی عورتوں سے اگر رمضان کے روزوں کی قضا میں سستی ہوئی اور پھر وہ انتقال کر گئیں تو اگر ان کی طرف سے کوئی روزوں کی قضا کرنے والا نہ ہو تو ہر روزہ کے بدلے ان کی طرف سے ایک ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔
مذکورہ اشخاص میں سے اگر کسی نے کوئی ترکہ بھی نہیں چھوڑا کہ جس سے مسکینوں کو کھانا دیا جا سکے تو اس کے ذمہ کچھ نہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها... ﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم... ﴿١٦﴾... سورة التغابن
’’اللہ سے ڈرو جتنا تم میں طاقت ہو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب