سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(111) رمضان کے روزوں کی فرضیت اور نفل روزوں کی فضیلت

  • 21616
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1021

سوال

(111) رمضان کے روزوں کی فرضیت اور نفل روزوں کی فضیلت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان کے روزے کن لوگوں پر فرض ہیں؟نیز رمضان کے روزوں کی اور نفل روزوں کی کیا فضیلت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمضان کے روزے مکلف مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں اور جو بچے اور بچیاں سات سال کے ہو جائیں اور وہ روزے رکھ سکتے ہوں تو ان کے لیے رمضان کے روزے رکھنا مستحب ہے اور ان کے سر پرست حضرات کا یہ فرض ہے کہ طاقت رکھنے کی صورت میں انہیں نماز کی طرح روزے کا بھی حکم دیں ۔ اس مسئلہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ الصِّيامُ كَما كُتِبَ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٨٣ أَيّامًا مَعدود‌ٰتٍ فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذينَ يُطيقونَهُ فِديَةٌ طَعامُ مِسكينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيرًا فَهُوَ خَيرٌ لَهُ وَأَن تَصوموا خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿١٨٤﴾...سورة البقرة

’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (183) گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وه اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وه اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو۔‘‘

 اور اس کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿شَهرُ رَمَضانَ الَّذى أُنزِلَ فيهِ القُرءانُ هُدًى لِلنّاسِ وَبَيِّنـٰتٍ مِنَ الهُدىٰ وَالفُرقانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلىٰ ما هَدىٰكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿١٨٥﴾... سورةالبقرة

’’ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو-‘‘

اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، اورزکاۃ دینا، اور رمضان کے روزے رکھنا، اور بیت اللہ کا حج کرنا؟‘‘(متفق علیہ)

نیز جبرئیل علیہ السلام  نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اور حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، اور استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طریق سے روایت کیا ہے اور اسی معنی کی ایک اور حدیث بخاری و مسلم ہی میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طریق سے بھی مروی ہے۔

نیز صحیح، بخاری و مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے ایمان کے ساتھ اجرو ثواب طلب کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دئیے گئے۔‘‘

دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے کہ آدمی کا ہر عمل اسی کے لیے ہے ایک نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا تک ہے البتہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسے اس کا بدلہ دونگا۔ اس نے میرے لیے اپنی شہوت سے کنارہ کشی کی اور کھانا پینا ترک کیا اور روزہ دار کے لیے خوشی کے دو موقع ہیں ایک موقع وہ ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسرا موقع وہ ہوگا جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا۔ اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘(متفق علیہ)

رمضان کے روزوں کی اور عام روزوں کی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں جو لوگوں میں معروف و مشہور بھی ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:183

محدث فتویٰ

تبصرے