سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) مسبوق نے جو رکعتیں امام کے ساتھ پائی ہیں کیا یہ اس کی پہلی شمار کی جائیں گی یا آخری ؟

  • 21563
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 796

سوال

(58) مسبوق نے جو رکعتیں امام کے ساتھ پائی ہیں کیا یہ اس کی پہلی شمار کی جائیں گی یا آخری ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسبوق نے جو رکعتیں امام کے ساتھ پائی ہیں کیا یہ اس کی پہلی شمار کی جائیں گی یا آخری ؟ مثال کے طور پر اگر چار رکعت والی نماز میں سے دو رکعتیں فوت ہو گئی ہوں تو کیا وہ فوت شدہ دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ کوئی اور سورت پڑھے گا۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بات یہ ہے کہ امام کے ساتھ مسبوق کو جتنی رکعتیں ملی ہیں وہ اس کی پہلی اور جنہیں وہ بعد میں قضا کرے گا وہ اس کی آخری شمار کی جائیں گی اور یہی حکم تمام نمازوں کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’جب نماز کھڑی ہو جائے تو سکون ووقار کے ساتھ چلو جو ملے اسے پڑھ لو۔ اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔‘‘(متفق علیہ)

بنابریں چار رکعت والی نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں اور مغرب کی تیسری رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پر اکتفاء کرنا مستحب ہے جیسا کہ صحیحین میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت بھی پڑھتے تھے اور پہلی رکعت کی قرآءت دوسری کی بہ نسبت لمبی ہوتی تھی اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔

لیکن اگر کبھی کبھار ظہر کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت پڑھ لی جائے تو بھی درست ہے صحیح مسلم میں ابو خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر کی پہلی دورکعتوں میں الم تنزیل السجدہ کے بقدر اور آخری دورکعتوں میں اس کی آدھی مقدار نیز عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی آخری دو رکعتوں کے بقدر اور عصر کی آخری دورکعتوں میں اس کی آدھی مقدار تلاوت کرتے تھے۔

لیکن یہ حدیث اس بات پر محمول کی جائے گی کہ آپ ایسا کبھی کبھار کرتے تھے۔تاکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ہو جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:122

محدث فتویٰ

تبصرے