السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہت سے لوگ نماز میں بکثرت لغوکام اور حرکتیں کرتے رہتے ہیں،تو کیا نماز کے باطل ہونے کے لیے حرکت کی کوئی حد متعین ہے؟اور بعض لوگ لگاتار تین حرکت کرنے سے نماز کو باطل قراردیتے ہیں،تو کیا اس تحدید کی کوئی اصل ہے؟اور جو لوگ اپنی نمازوں میں بکثرت لغو کام کرتے ہیں انہیں آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں اطمینان وسکون ملحوظ رکھنا،نیز لغو کام سے اجتناب کرنا ہرمومن مرد وعورت کے لیے ضروری ہے ،کیونکہ اطمینان وسکون نماز کا ایک رکن ہے،جیساکہ صحیحین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو جس نے اپنی نماز میں اطمینان ملحوظ نہیں رکھا نماز دہرانے کا حکم دیا،پس نماز میں خشوع وخضوع اور حضور قلب ہر مسلمان مردوعورت کے لیے مشروع ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
﴿قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ ﴿١﴾ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢﴾... سورةالمؤمنون
’’فلاح یاب ہوگئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں۔‘‘
نماز میں لباس اور داڑھی وغیرہ سے کھیلنا مکروہ ہے،اور اگر یہ فعل لگاتار اور کثرت سے ہوتو حرام اور نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے،جو لوگ نماز کے باطل ہونے کے لیے تین حرکتوں کی تحدید کرتے ہیں ان کا یہ قول ضعیف اور بے بنیاد ہے،بلکہ یہ امرنمازی کے اعتقاد پر موقوف ہے،اگر نمازی کا اعتقاد یہ ہے کہ اس نے لگاتار اور کثرت سے حرکتیں کی ہیں تو اسے فرض نماز کی صورت میں نماز دہرانا ہوگا اور اللہ سے توبہ کرنی ہوگی۔
ہرمسلمان مردوعورت کے لیے میری نصیحت ہے کہ وہ نماز میں خشوع وخضوع کا اہتمام کریں،نیز معمولی حرکت وعبث سے بھی اجتناب کریں،کیونکہ نماز کی بڑی اہمیت ہے،یہ اسلام کا ستون اور شہادتین کے اقرار کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے،نیز قیامت کے دن بندوں سے سب سے پہلے اسی کے متعلق پوچھ تاچھ ہوگی،اللہ تمام مسلمانوں کواپنی مرضی کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب