السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر اول وقت پر اذان نہیں دی گئی تو بعد میں اذان دینے کی کوئی ضرورت نہیں،کیونکہ اذان دینے کا مقصد لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دینا ہے،اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟اور کیا صحراء وبیابان میں تنہا شخص کے لیے اذان دینا مشروع ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاں بہت سارے موذن موجود ہوں جن کی اذان سے مقصد حاصل ہوگیاہو،وہاں اگر کسی موذن نے اول وقت پر اذان نہیں دی تو بعد میں اذان دینا اس کے لیے مشروع نہیں،ہاں معمولی تاخیر کی صورت میں اذان دی جاسکتی ہے۔
البتہ اگر شہر میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا موذن نہیں ہے تو ایسی حالت میں کچھ دیر ہی سے سہی،اذان دینا واجب ہے ،کیونکہ اذان دینا فرض کفایہ ہے،اور جب اس کے علاوہ کوئی دوسرا اذان دینے والا نہیں تو یہ ذمہ داری اس کے اوپر واجب ہے،نیز اس لیے بھی اس صورت میں اذان دینا ضروری ہے کہ عام طور پر لوگوں کو اذان کا انتظار رہتا ہے۔
رہا مسافر تو اس کے لیے اذان دینا مشروع ہے،چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو،جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:جب تم صحرا وبیابان میں ہویا اپنی بکریوں میں ہوتو بلند آواز سے اذان دے لیاکر،کیونکہ موذن کی آواز جس جس مخلوق نے سنا خواہ انسان ہویا جن یا کوئی اور مخلوق،وہ سب کے سب قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے۔ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس روایت کو مرفوع قراردیا ہے۔نیز مسافر کے لیے اذان دینا اس لیے بھی مشروع ہے کہ اذان کی مشروعیت اور اس کی افادیت کے سلسلہ میں واردتمام حدیثیں عام ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب