السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کی ظہر کی نماز فوت ہوگئی اور اسے اس وقت یاد آیا جب نماز عصر کے لیے اقامت ہوچکی،کیا وہ عصر کی نیت سے جماعت میں شامل ہویا ظہر کی نیت سے؟یاپہلے تنہا ظہر پڑھے پھر عصر پڑھے؟نیز فقہائے کرام کے اس قول کاکیامطلب ہے:"موجودہ نماز کے فوت ہونے کااندیشہ ہوتو ترتیب ساقط ہوجاتی ہے"اور کیا جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوتو ترتیب ساقط ہوگی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکور شخص کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ ظہر کی نیت سے جماعت میں شامل ہوجائے ،پھر اس کے بعد عصر کی نماز پڑھے کیونکہ ترتیب واجب ہے،اور جماعت کے فوت ہونے کے اندیشہ سے ترتیب ساقط نہیں ہوگی،رہا فقہائے کرام کا مذکورہ بالا قول،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص ک کوئی نماز چھوٹی ہوئی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے موجودہ نماز سے پہلے پڑھے،لیکن اگر موجودہ نماز کا وقت تنگ ہے تو پہلے موجودہ نماز ہی پڑھے،مثلاً اس کی عشاء کی نماز چھوٹی ہوئی ہے اور اسے طلوع آفتاب سے کچھ پہلے یاد آیا،جبکہ اس دن کی فجر بھی اس نے نہیں پڑھی ہے،تو ایسی صورت میں وقت فوت ہونے سے پہلے پہلے وہ نماز فجر اداکرلے،کیونکہ وقت اسی کا ہے،پھر عشاء پڑھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب