سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) امورِ شریعت میں سستی اور کاہلی سے بچنا

  • 21506
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1835

سوال

(1) امورِ شریعت میں سستی اور کاہلی سے بچنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض اسلامی معاشرے میں بہت سی خلاف ورزیاں پائی جاتی ہیں،جن میں سے بعض کا تعلق تو قبروں سے ہے،اور بعض کا تعلق حلف،قسم اور نذروغیرہ سے ہے،اور چونکہ ان میں سے بعض شرک اکبر کے قبیل سے ہوتی ہیں جن کے کرنے سے انسان دین سے خارج ہوجاتا ہے'اور بعض اس سے ہلکی ہوتی ہیں،اس لیے ان کے احکام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں،اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ ان لوگوں کے لیے مذکورہ مسائل کے احکام تفصیل سے بیان کردیں،اور عام مسلمانوں کو بھی ان امور میں سستی وکاہلی برتنے سے منع کرتے ہوئے نصیحت فرمادیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہت سے لوگوں کو اس بات کی تمیز ہی نہیں ہوپاتی کہ قبروں کے پاس کیا کیا کیا چیزیں مشروع ہیں،اور کون کون سے کام شرک اور بدعت ہیں،جبکہ بہت سے لوگ جہالت اور اندھی تقلید کے سبب بعض اوقات شرک اکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں،ایسی صورت میں ہرجگہ کے علماء پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کے  لیے دین کو واضح کریں،توحید اور شرک کی حقیقت ان سے بیان کریں،اور ساتھ ہی ساتھ وہ انہیں شرک کے اسباب ووسائل نیز ان کے اندر  پھیلی ہوئی نوع بنوع بدعتوں سے آگاہ کریں،تاکہ وہ ان سے اجتناب کرسکیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِذ أَخَذَ اللَّهُ ميثـٰقَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنّاسِ وَلا تَكتُمونَهُ ...﴿١٨٧﴾... سورة آل عمران

’’اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ وقت یاد کرو) جب اللہ تعالیٰ نے کتاب والوں سے عہد لیا کہ تم اس کتاب کو(جو تمھیں دی گئی ہے) لوگوں سے(صاف صاف) بیان کردینا اور اسے چھپانا نہیں۔‘‘

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

﴿إِنَّ الَّذينَ يَكتُمونَ ما أَنزَلنا مِنَ البَيِّنـٰتِ وَالهُدىٰ مِن بَعدِ ما بَيَّنّـٰهُ لِلنّاسِ فِى الكِتـٰبِ أُولـٰئِكَ يَلعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلعَنُهُمُ اللّـٰعِنونَ ﴿١٥٩ إِلَّا الَّذينَ تابوا وَأَصلَحوا وَبَيَّنوا فَأُولـٰئِكَ أَتوبُ عَلَيهِم وَأَنَا التَّوّابُ الرَّحيمُ ﴿١٦٠﴾... سورة البقرة

’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے (159) مگر وه لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں، تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہوں‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’جو کسی بھلے کام کی رہنمائی کرے گا تو اسے بھی اس کام کے کرنے والے کے برابراجر ملے گا۔‘‘(صحیح مسلم)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’’جو راہ ہدایت کی دعوت دے گا تو اسے بھی اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا،اور یہ ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا،اور جو راہ ضلالت کی طرف بلائےگا تو اس کے اوپر بھی اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہوگا،اور یہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ کرے گا۔‘‘(صحیح مسلم)

نیز صحیحین میں معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی صحیح سمجھ عطا کردیتا ہے۔‘‘

علم کی نشرواشاعت اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلانے،نیز علم کو چھپانے یا اس سے بے رخی برتنے سے دور رہنے کے سلسلہ میں اور بھی بہت ساری آیات واحادیث وارد ہیں۔

البتہ قبروں کے پاس جو طرح طرح کے شرک وبدعات اکثر ملکوں میں کئے جاتے ہیں تو یہ چیز بالکل عیاں ہیں،اس پر خصوصی  توجہ دے کر لوگوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرنا اور اس کے انجام سے ڈرانا چاہیے،مثلاً مردوں کو پکارنا،ان سے فریاد کرنا،اور بیماروں کے لیے شفا اور دشمنوں پر فتح وغیرہ کا سوال کرنا،یہ سارے کام شرک اکبر ہیں جو زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اعبُدوا رَبَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم وَالَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿٢١﴾... سورة البقرة

’’اےلوگو! اپنےپروردگار کی بندگی کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا،تاکہ تم پرہیز گار ہوجاؤ۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾... سورةالذاريات

’’اور میں نے جن اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘

اور  فرمایا:

﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَرهُما وَقُل لَهُما قَولًا كَريمًا ﴿٢٣﴾... سورةالإسراء

’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔‘‘

﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ وَيُقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ وَيُؤتُوا الزَّكو‌ٰةَ وَذ‌ٰلِكَ دينُ القَيِّمَةِ ﴿٥﴾... سورةالبينة

’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔‘‘

اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں موجود ہیں۔

جس عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جن اور انسان کو پیدا کیا اور جس کا انھیں حکم دیا وہ یہی توحید عبادت ہے،یعنی نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج،قربانی،نذر اور ان کے علاوہ ہر طرح کی عبادت واطاعت کو اللہ کے لیے خاص کردیا جائے،اللہ تعالیٰ کا  ارشاد ہے:

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَريكَ لَهُ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾... سورةالانعام

’’آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے (162) اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘

مذکورہ آیت میں"نسک" سے مراد عبادت ہے،اور قربانی بھی عبادت کی ایک قسم ہے۔

اورفرمایا:

﴿إِنّا أَعطَينـٰكَ الكَوثَرَ ﴿١ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر ﴿٢ إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الأَبتَرُ ﴿٣﴾... سورة الكوثر

’’یقیناً ہم نے تجھے (حوض) کوثر (اور بہت کچھ) دیا ہے (1) پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر (2) یقیناً تیرا دشمن ہی لاوارث اور بے نام ونشان ہے۔ (3)‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے غیر اللہ کے لیے قربانی کی"(صحیح مسلم بروایت امیر المومنین علی بن ابی طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورةالجن

’’اور مسجدیں اللہ ہی(کی عبادت) کے لیے ہیں،تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَمَن يَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ لا بُرهـٰنَ لَهُ بِهِ فَإِنَّما حِسابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لا يُفلِحُ الكـٰفِرونَ ﴿١١٧﴾... سورةالمؤمنون

’’جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، پس اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بےشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔‘‘

اورفرمایا:

﴿ذ‌ٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم لَهُ المُلكُ وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ ما يَملِكونَ مِن قِطميرٍ ﴿١٣ إِن تَدعوهُم لا يَسمَعوا دُعاءَكُم وَلَو سَمِعوا مَا استَجابوا لَكُم وَيَومَ القِيـٰمَةِ يَكفُرونَ بِشِركِكُم وَلا يُنَبِّئُكَ مِثلُ خَبيرٍ ﴿١٤﴾... سورة الفاطر

’’یہی ہے اللہ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وه تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں (13) اگر تم انہیں پکارو تو وه تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے، بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ آپ کو کوئی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔‘‘

مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے لیے نماز پڑھنا اور قربانی کرنا،نیز مردوں ،بتوں،درختوں پتھروں کو پکارنا یہ سب اللہ کے ساتھ شرک اور کفر کرنا ہے،اور اللہ کے سوا جن جن چیزوں کو پکاراجاتاہے خواہ وہ نبی ہوں یافرشتے،ولی ہوں یا جن،بت ہوں یا کچھ اور،انہیں پکارنے والوں کے نفع ونقصان کاکوئی اختیار نہیں،اور اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارنا شرک اور کفر ہے،ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اول تو یہ اپنے پکارنے والے کی پکارسن نہیں سکتے،اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو ان کا کچھ بنا نہیں سکتے۔

لہذا تمام مکلف جن اور انسان پر واجب ہے کہ وہ خود ایسے کاموں سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے دوررہنے کی تاکید کریں،اور کھول کر بیان کردیں کہ یہ سب کام باطل اوررسولوں کی لائی ہوئی توحید واخلاص کی دعوت کے منافی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَقَد بَعَثنا فى كُلِّ أُمَّةٍ رَسولًا أَنِ اعبُدُوا اللَّهَ وَاجتَنِبُوا الطّـٰغوتَ فَمِنهُم مَن هَدَى اللَّهُ وَمِنهُم مَن حَقَّت عَلَيهِ الضَّلـٰلَةُ فَسيروا فِى الأَرضِ فَانظُروا كَيفَ كانَ عـٰقِبَةُ المُكَذِّبينَ ﴿٣٦﴾... سورةالنحل

’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی، پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟‘‘

اور فرمایا:

﴿وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَسولٍ إِلّا نوحى إِلَيهِ أَنَّهُ لا إِلـٰهَ إِلّا أَنا۠ فَاعبُدونِ ﴿٢٥﴾... سورةالأنبياء

’’اور ہم نے آپ سے  پہلے جو بھی پیغمبر بھیجے اس پر یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی سچا معبود نہیں،تو میری ہی بندگی کرتے رہو۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے،انہیں شرک سے ڈراتے اور کلمہ لا الٰہ الا  اللہ کا مفہوم واضح کرتے رہے،تو کچھ لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کی اور اکثر نے غروروتکبر میں آکر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وفرمانبرداری کرنے سے انکار کردیا،پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت  فرمائی اور وہاں انصار اور مہاجرین کے درمیان اللہ،کی دعوت کو  پھیلایا،اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور امراء اور بادشاہوں کے پاس خطوط لکھ کر ان کے سامنے اپنی دعوت اورلائی ہوئی شریعت کوواضح کیا،اور اس راہ میں پیش آنے والی تمام مصیبتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صبر کیا،یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہوا اور لوگ اللہ کےدین میں جوق در جوق داخل ہوئے،توحید کا بول بالا ہوا اور مکہ ومدینہ اور سارے جزیرہ عرب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین    کے  ہاتھوں شرک کا خاتمہ ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد دعوت دین کی ذمہ داری آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین    نے سنبھالی اور اس کے لیے مشرق ومغرب میں جہاد کا پرچم لہرایا،یہاں تک کہ اللہ نے انہیں دشمنوں پر غلبہ عطا کیا،روئے زمین پر ان کی سلطنت قائم ہوئی،اور اللہ کے وعدے کے مطابق اس کا دین تمام دینوں پر غالب ہوا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

﴿هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ ﴿٩﴾... سورة الصف

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے پیغمبر کو  ہدایت کی باتیں اور سچا دین دے کر اس لیے  بھیجا کہ اس کو ہردین پر غالب کردے،گومشرکوں کو بُرا لگے۔‘‘

اسی طرح بدعت اور شرک کے اسباب ووسائل میں سے وہ تمام کام بھی ہیں جو قبروں کے پاس کیے جاتے ہیں ،مثلاً قبروں کے پاس نماز پڑھنا،قرآن کی تلاوت کرنا اور ان کے اوپر مسجد اور قبے  تعمیر کرنا،یہ سارے کام بدعت،خلاف شرع اور شرک اکبر کا ذریعہ ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’یہودونصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو،انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘(متفق علیه بروایت عائشه رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )

نیز صحیح مسلم میں جندب بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’سنو! تم سے پہلے کے لوگ اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا کرتے تھے ،خبردار!تم قبروں کو سجدہ گانہ نہ بنانا،میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

مذکورہ بالا دونوں حدیثوں اور اس مفہوم کی دیگر حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ یہودونصاریٰ اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا کرتے تھے،اور پھر آپ نے اپنی اُمت کو ان کی مشابہت اختیار کرکے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے،ان کے پاس نماز پڑھنے،یا قیام کرنے ،یا قرآن کی تلاوت کرنے سے منع فرمایا ہے،کیونکہ یہ سارے کام شرک کے اسباب ووسائل میں سے ہیں،اورایسے ہی قبروں پر عمارت اورقبے بنانا اور ان پر چادریں چڑھانا بھی شرک اور مردوں کے حق میں غلو کا سبب ہے،جیسا کہ یہودونصاریٰ نے نیز امت محمدیہ کے جاہل عوام نے کیا،یہاں تک کہ انہوں نے مردوں کی عبادت کی،ان کے لیے قربانی کی،ان سے فریاد کیا،ان کے لیے نذر مانی اور ان سے بیمار کے لیے شفا اور دشمنوں پر فتح وغلبہ کا سوال کیا،اور یہ ساری باتیں اس شخص سے مخفی نہیں جس نے حسین،بدوی،شیخ عبدالقادر جیلانی  رحمۃ اللہ علیہ ، اور ابن عربی وغیرہ کی قبروں پر ان سب خرافات کا مشاہدہ کیا ہو۔

صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں کو چونا گچ کرنے،ان پر بیٹھنے اور عمارت بنانے اور ان پر لکھنے سے منع فرمایا ہے،اور یہ ممانعت صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ سارے کام شرک اکبر کا ذریعہ ہیں۔

لہذا تمام مسلمانوں پر خواہ حکومتیں ہوں یاافراد۔واجب ہے کہ وہ شرک و بدعات سے دور رہیں اور جب انہیں دین کے کسی معاملے میں اشکال ہوجائے توان علماء سے دریافت کرلیں جو عقیدہ کی درستگی اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے میں مشہور ومعروف ہیں،تاکہ وہ علم وبصیرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکیں،جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٧﴾... سورةالأنبياء

’’اگر تم نہ جانتے ہوتو علم والوں سے پوچھ لو۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص علم کی طلب میں کوئی رستہ  چلے گا تو اللہ اس کے لیے اس کے بدلے جنت کا راستہ آسان کردے گا۔‘‘

اور فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی صحیح سمجھ عطا کردیتاہے۔‘‘

اور یہ بات معلوم ہے کہ بندوں کی پیدائش بے مقصد نہیں،بلکہ انہیں ایک بڑی حکمت اور بہترین مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے،اور وہ ہر چیز سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ کی عبادت کرنا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ﴿٥٦﴾... سورةالذاريات

’’اور میں نے جن اور انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘

نیز یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس عبادت کی جان کاری کتاب وسنت کے اندر غوروتدبر کرکے،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جن عبادات کا حکم دیا ہے ان کی معرفت کرکے،اور اشکال کے  وقت اہل علم سے دریافت کرکے ہی حاصل ہوگی،پس اس طریقہ سے اللہ کی عبادت کی معرفت حاصل کی جائے گی جس کے لیے اللہ نے بندوں کو پیدا کیاہے،اور مشروع طریقہ پر اسے ادا کیا جائے گا،اور اللہ کی رضا وخوشنودی اور اس کے کرم سے سرفرازی نیز اس کے غیض وعقاب سے نجات کا یہی واحد راستہ ہے۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے،انہیں دین کی سمجھ عطا کرے،نیک اور بہترین لوگوں کو ان کا حاکم بنائے،ان کے رہنماؤں کی اصلاح  فرمائے،اور ان کے علماء کو اپنی دعوت وتعلیم اور نصیحت وارشاد کی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق دے۔

شرک کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ غیراللہ مثلاً نبیوں کی ،کسی کے سر کی،کسی کی زندگی کی،اور امانت اور بزرگی کی قسم کھائی جائے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’جسے قسم کھانی ہی ہو وہ اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے۔‘‘(متفق علیه)

’’جس نے اللہ کے سوا کسی چیز کی قسم کھائی اس نے شرک کیا‘‘اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح سند کے ساتھ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے۔

اورفرمایا:

’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا‘‘ اسے ابوداود  رحمۃ اللہ علیہ  اور ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بسند صحیح ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے۔

اور فرمایا:

’’جس نے امانت کی قسم کھائی وہ ہم میں سے نہیں‘‘

اور فرمایا:

’’لوگو! تم اپنے ماں باپ کی اور شرکاء کی قسم نہ کھاؤ'اور جب اللہ کی قسم کھاؤ تو سچ بات ہی پر کھاؤ۔‘‘

اس مفہوم کی اور بھی بہت ساری احادیث مروی ہیں۔

غیر اللہ کی قسم کھانا شرک اصغر ہے ‘لیکن اگر اس قسم سے اللہ کی تعظیم کی طرح غیر اللہ کی تعظیم مقصود ہو‘یا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ کے سوا وہ نفع اور نقصان کا مالک ہے‘یا یہ کہ اس لائق ہے کہ اسے پکارا جائے یا اس سے فریاد کی جائے'تو یہ شرک اکبر تک  پہناسکتاہے۔شرک اصغر ہی کے قسم سے درج ذیل جملے بھی ہیں:

’’جواللہ چاہے اور فلاں چاہے’’اور ‘‘اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتے’’اور‘‘یہ اللہ اور فلاں کی طرف سے ہے‘‘ اس قسم کی تمام باتیں شرک اصغر ہیں‘کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’یہ نہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے‘بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ چاہے پھر فلاں چاہے۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر یوں کہا جائے :’’اگرا للہ نہ ہوتا پھر فلاں نہ ہوتا’’یا‘‘یہ اللہ کی طرف سے  پھر فلاں کی طرف سے ہے‘‘تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے'اور یہ اس صورت میں ہے جب وہ شخص اس کام کے حصول کا سبب ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ ثابت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  آئے اور آپ سے عرض کیا:

’’جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں"توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا:"تم نے تو مجھے اللہ کا شریک بنادیا'بلکہ یوں کہو:جو صرف اللہ چاہے۔‘‘

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے:’’جو صرف اللہ چاہے‘‘تو یہی افضل ہے‘لیکن اگر ایسا کہہ دے’’جو اللہ چاہے پھر فلاں چاہے‘‘تو کوئی حرج نہیں ‘اس طرح سے تمام حدیثوں اور دلیلوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:9

محدث فتویٰ

تبصرے