اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو بغیر احرام باندھے میقات سے آگے بڑھ جائے۔ چاہے حج یا عمرہ کے لیے جا رہا ہو یا کسی اور کام سے؟
جو شخص حج اور عمرہ کے لیے جا رہا ہو اور میقات سے آگے بڑھ جائے اسے واپس آکر میقات سے احرام باندھنا ضروری ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں گے۔اہل شام جحفہ سے، اہل نجد قرن منازل سے اور اہل یمن یلملم سےصحیح حدیث سے یہ ثابت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کا میقات ذوالحلیفہ کو قراردیا ۔ اہل شام کا جحفہ اہل نجد کا قرن منازل اوراہل یمن کا یلملم اور کہا کہ یہ جگہیں مذکورہ بالا علاقہ والوں کے لیے میقات ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو وہاں سے گزریں اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھیں۔
اس لیے اگر حج یا عمرہ کا ارادہ ہو تو میقات سے احرام باندھنا ضروری ہے اگر مدینہ منورہ کی طرف سے آرہا ہو تو ذوالحلیفہ سے احرام باندھنا ہو گا۔ اگر شام مصر یا کسی اور مغرب کی جانب واقع ملک سے آرہا ہو تو جحفہ سے جسے آج کل رابغ کہتے ہیں اگر یمن کی طرف سے آرہا ہو تو یلملم سے اور اگر نجد یا طائف سے آرہا ہو تو وادی قرن سے احرام باندھنا ہو گا جسے آج کل سیل اور بعض لوگ وادی محرم بھی کہتے ہیں۔ چاہے تو صرف حج کا احرام باندھے اور چاہے تو صرف عمرہ کا، یا دونوں ہی کی نیت کرے۔ لیکن اگر حج کا مہینہ ہے تو افضل یہ ہے کہ صرف عمرہ کا احرام باندھے اور طواف سعی اور قصر کر کے عمرہ سے حلال ہو جائے پھر حج کے وقت حج کا احرام باندھے ۔ حج کے مہینوں کے علاوہ ایام میں مثلاًرمضان یا شعبان میں صرف عمرہ کی نیت کرے۔ اگر مکہ مکرمہ کسی اور ضرورت سے آنا ہوا ہے۔حج یا عمرہ کے لیے نہیں۔ مثال کے طور پر تجارتی غرض سے ہو یا کسی عزیز یا دوست کی زیارت کے لیے تو صحیح اور راجح حکم یہی ہے کہ ایسے آدمی کے لیے احرام باندھنا ضروری نہیں ۔بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ موقع ستے فائدہ اٹھائے اور عمرہ کی نیت سے احرام باندھ لے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب