عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حدیث ہے "علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے کیا یہ حدیث درست ہے؟ (ام اسامہ: لاہور کینٹ)
یہ روایت درست نہیں ہے۔ خطیب بغدادی نے اپنی کتاب: "الرحلۃ فی طلب الحدیث" میں تین سندوں سے ذکر کی ہے جن کا دارومدار الحسن بن عطیہ عن ابی عاتکہ طریف بن سلمان عن انس پر ہے اور اسی سند سے انہوں نے تاریخ بغداد 9/364، ابن عبد البر نے جامع بیان العلم و فضلہ 1/7،8 میں ذکر کی ہے اور امام عقیلی نے کتاب الضعفاء الکبیر 2/230) میں: حماد بن خالد الخياط قال حدثنا طريف بن سلمان ابو عاتكه قال سمعت انس بن مالك کے طریق سے ذکر کی ہے اور ابو عاتکہ طریف بن سلمان کے سوا کسی سے چین کے الفاظ محفوظ نہیں ہے اور طریف منکر الحدیث اور متروک راوی ہیں۔ طریف کی اس روایت کی طرف امام بخاری نے التاریخ الکبیر 4/310 رقم 6029/3135 میں اشارہ کر کے اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے اور جسے امام بخاری منکر الحدیث قرار دیں، اس سے روایت لینا حلال نہیں جیسا کہ میزان الاعتدال وغیرہ میں مذکور ہے لہذا یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ واللہ اعلم
ابن عبد البر نے جامع بیان العلم اس کی متابعت ذکر کی ہے لیکن اس سند میں یعقوب بن اسحاق العسقلانی کذاب راوی ہے جیسا کہ میزان 4/449 وغیرہ میں ہے۔
ابن عدی نے اس روایت کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کیا ہے لیکن اس کی سند میں احمد بن عبداللہ الجویباری کذاب راوی ہے لہذا اس کی سند بھی علل قادحہ سے خالی نہیں۔ امام ابن الجوزی نے تو اسے موضوعات میں شمار کیا اور اسماعیل بن محمد العجلونی نے کشف الخفاء و مزیل الالباس 1/138 میں ذکر کر کے اسے مجموعی طرق کے لحاظ سے حسن قرار دیا ہے۔ حقیقت میں یہ نہ موضوع ہے اور نہ ہی حسن بلکہ انتہائی ضعیف ہے۔ والعلم عنداللہ
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب