سورۃ الواقعہ کے بارے میں ہم نے سنا ہے جو آدمی رات کو پڑھتے تو اللہ پاک اس سے رزق کی تنگی ہٹا دیتے ہیں۔ کیا قرضدار آدمی اس کو دن کے اندر بھی پڑھ سکتا ہے۔ مہربانی کر کے قرآن و حدیث سے آگاہ کریں اس کے علاوہ قرضدار کے لئے اور وظیفے جو قرآن و حدیث میں ملتے ہیں ضرور بتائیں۔ (ایک سائل۔ بھکر)
سورۃ الواقعہ کے بارے مشہور ہے کہ یہ سورت غنی اور تونگری والی ہے جو اسے رات کو پڑھے اپنے اہل و عیال کو پڑھائے اسے فاقہ کبھی نہیں پہنچتا۔ لیکن اس کے متعلق مروی روایات ضعیف اور موضوع ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہوئے سنا:
"جس شخص نے ہر رات سورۃ الواقعہ تلاوت کی اسے فاقہ کبھی بھی نہیں پہنچے گا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسے ہر رات تلاوت کریں۔"
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (680) المطالب العالیۃ (3765) شعب الایمان للبیہقی، باب فی تعظیم القرآن (2498) العلل المتناھیۃ 1/105 تفسیر ابن کثیر سورۃ الواقعہ 1293 مطبوعہ مکتبہ دارالسلام)
ابن کثیر اور شعب الایمان بیہقی میں یہ بھی ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو کہا۔ آپ کو کیا شکوہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: اپنے گناہوں کا پھر کہا آپ کی کیا خواہش ہے تو انہوں نے کہا: اپنے رب کی رحمت کی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کسی طبیب کو بھیج دوں کہنے لگے طبیب نے ہی تو بیمار کیا ہے۔ پھر کہا میں تمہارے لئے کچھ مال کا حکم دوں؟ کہنے لگے ایک دن پہلے آپ نے مجھے اس سے منع کیا ہے۔ مجھے اس کی حاجت نہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا اسے اپنے اہل و عیال کے لیے چھوڑ دینا۔ کہنے لگے: میں نے انہیں ایک ایسی چیز کی تعلیم دی ہے جب وہ اسے پڑھیں گے تو فقیر نہیں ہوں گے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے جس نے ہر رات سورۃ الواقعہ کی تلاوت کی وہ فقیر نہیں ہو گا۔ یہ روایت ضعیف و مضطرب ہے۔
1۔ اس کی سند میں شجاع یا ابو الشجاع مجہول راوی ہے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
" هذا حديث منكر، وشجاع والسرى لا اعرفهما ""یہ روایت منکر ہے اور اس کی سند میں شجاع اور السری کو میں نہیں پہچانتا"
(العلل المتناھیۃ 1/105 میزان الاعتدال 2/265، 4/536) لسان المیزان 6/1392 السری کی توثیق میزان وغیرہ میں موجود ہے۔
2۔ اسی طرح اس کی سند میں ابو طیبہ یا ابو ظبیہ بھی مجہول ہے۔
(میزان الاعتدال 4/542 تقریب ص 413)
3۔ اس کی سند میں اضطراب بھی ہے السری کے شاگردوں نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ اس کا استاد شجاع ہے یا ابو الشجاع اسی طرح شجاع کے استاذ میں بھی اختلاف ہے کہ وہ ابو فاطمہ ہے یا ابو ظبیہ پھر انہوں نے ابو ظبیہ کا لفظ ضبط کرنے میں بھی اختلاف کیا ہے کہ وہ ابو ظبیہ ہے یا ابو طیبہ؟
4۔ اور یہ ابو ظبیہ عیسی بن سلیمان الجرجانی ہے اور اس کی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت منقطع ہے تفصیل کے لئے دیکھیں۔
(لسان المیزان 7/61 اور تعلیق العلل المتناھیہ ص 1/105)
5۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے ضعف کی چار وجوہ بیان کرتے ہیں۔
1۔ یہ منقطع ہے جیسا کہ امام دارقطنی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
2۔ اس کا متن منکر ہے جیسا کہ امام احمد نے ذکر کیا۔
3۔ اس کے راوی ضعیف ہیں جیسا کہ امام ابن جوزی نے کہا۔
4۔ یہ روایت مضطرب ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر امام احمد، امام ابو حاتم، امام ابن ابی حاتم، امام دارقطنی، امام بیہقی وغیرھم کا اجماع ہے۔ ملاحظہ ہو۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ 1/305 رقم 289)
2۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ:
"جس شخص نے ہر رات سورۃ الواقعہ تلاوت کی اسے کبھی بھی فاقہ نہیں پہنچے گا اور جس نے ہر رات (لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ) کی تلاوت کی وہ اللہ سے قیامت والے دن اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گا۔
تذکرۃ الموضوعات ص: 78 ذیل الاحادیث الموضوعۃ (177)
اس کی سند میں احمد بن محمد بن عمر الیمامی کذاب راوی ہے جس کی وجہ سے یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ 1/305 (290) کتاب المجروحین 1/143 میزان 1/143)
3۔ انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ:
"جس نے سورۃ الواقعہ کی تلاوت کی اور اسے سیکھا وہ غافل لوگوں میں نہیں لکھا جائے گا اور وہ اس کے گھر والے فقیر نہیں ہوں گے۔"
امام سیوطی نے "ذیل الاحادیث الموضوعہ" (277) میں اسے ابو الشیخ کی روایت بطریق عبدالقدوس بن حبیب از حسن از انس رضی اللہ عنہ مرفوع بیان کیا ہے اور فرمایا: عبدالقدوس بن حبیب متروک ہے امام ابن حبان نے تصریح کی ہے کہ یہ روایت وضع کرتا تھا امام عبداللہ بن مبارک نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ 1/306 (391)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سورۃ الواقعہ کے متعلق مروی روایات ضعیف اور موضوع ہیں۔ بہت سارے خطیب اور واعظ اس روایت کو بیان کرتے ہیں اور وظائف و اوراد بتانے والے مشائخ بھی اسے اپنے مریدوں کو تلقین کرتے ہیں اور فراخی رزق کے لئے یہ فضائل کیلنڈروں کی صورت میں شائع بھی کئے جاتے ہیں اس کی وجہ عام طور پر یہ ہے کہ خطباء اور واعظین کو روایت کے صحت و سقم سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور کچھ اہل علم اس مسئلہ میں متساہل ہیں وہ فضائل اعمال میں ضعیف روایت بھی قبول کئے جاتے ہیں۔
ہمارے نزدیک کسی عمل کی فضیلت و استحباب ایک خالص شرعی مسئلہ ہے اس میں ایسی روایت قابل حجت اور لائق استناد ہے جس میں کوئی علت قادحہ نہ ہو جو اسے ضعیف بنا دے۔
ضعف بیان کرنا اہل علم پر لازم ہے اگر وہ ضعف بیان نہیں کریں گے تو عام لوگ اسے صحیح سمجھ کر قبول کرتے جائیں گے۔ اور مسائل کے لئے صحیح اور حسن احادیث کے علاوہ کسی سے حجت نہیں پکڑنی چاہیے اور یہ مذہب بڑے بڑے ائمہ محدثین کا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" ولا يجوز ان يعتمد فى الشريعة على الاحاديث الضعيفه التى ليست صحيحة ولا حسنة "(قاعدہ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ ص: 112،113)
شریعت میں ایسی احادیث ضعیفہ جو نہ صحیح ہیں اور نہ حسن قابل اعتماد نہیں، مشہور حنفی عالم محمد زاہد کوثری نے لکھا ہے کہ "ضعیف روایت کو مطلق طور پر نہ لینا۔ امام بخاری، امام مسلم، امام ابوبکر بن العربی جو اپنے دور کے بہت بڑے مالکی تھی امام ابو شامہ المقدسی جو اپنے وقت کے کبیر شافعی عالم تھے، امام ابن حزم اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہم کا مذہب ہے اور ان کا اس مسئلہ میں قوی غیر مہمل بیان ہے۔ (مقالات کوثری ص: 45،46)
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں راقم کی کتاب "آپ کے مسائل اور ان کا حل" جلد دوم کا مقدمہ۔ لہذا ضعیف روایات مطلق طور پر قابل حجت نہیں۔ فضائل میں اور نہ مسائل میں فقر و تنگ دستی کے لئے اللہ تعالیٰ سے اخلاص سے دعا کریں وہ ضرور دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی:
"اے میرے پروردگار! تو بھلائی میں سے جو کچھ میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔"
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام ان کے پاس آیا اور کہنے لگا میں اپنی مکاتبت سے عاجز آ چکا ہوں آپ میرا تعاون کریں۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے تھے اگر تیرے اوپر صیر پہاڑ جتنا بھی قرض ہو اللہ تعالیٰ اسے اتار دے گا پھر انہوں نے یہ دعا بتلائی۔
"اے اللہ اپنے حلال کے ذریعے اپنے حرام سے میری کفایت فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے اپنے علاوہ سے غنی کر دے۔"
(ترمذی، کتاب الدعوات (3547) مسند احمد 1/153 مستدرک حاکم 1/538)
مزید وظائف اوراد کے لئے راقم کی کتاب "پریشانیوں سے نجات" ملاحظہ فرمائیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب