آیت کریمہ پڑھنے کی کیا فضیلت ہے؟ بعض لوگ گھروں میں گٹھلیوں پر آیت کریمہ پڑھواتے ہیں اس کی کیا حیثیت ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا (ذوالفقار۔ لاہور)
آیت کریمہ قرآن مجید کی سورۃ الانبیاء، رقم 87 کی مشہور آیت ہے اللہ کے نبی یونس علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور مچھلی والے (نبی یونس علیہ السلام) کو یاد کیجئے جب وہ غصے کی حالت میں چل دئیے اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔ بالآخر اس نے اندھیروں میں پکارا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو پاک ہے بےشک میں ہی خطا کاروں میں سے ہوں تو ہم نے اس کی پکار کو قبول کیا اور غم سے نجات دی اور ہم ایمان والوں کو اس طرح نجات دیتے ہیں۔" (الانبیاء: 87)
قرآن حکیم کی آیت مجیدہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں گرفتار ہو گئے اور مشکلات میں پھنس گئے تو انہوں نے مشکل کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کو ان کلمات کے ساتھ پکارا۔ تو اللہ نے انہیں اندھیروں سے نجات دے دی اور بتا دیا کہ مشکلات کو حل کرنے والا، مصائب و بلیات سے نجات دینے والا، دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا سب سے بڑا فریاد رس غوث الاعظم صرف اللہ تعالیٰ ہے اور مشکل سے نجات صرف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کوئی بھی ایمان والا اللہ تعالیٰ کو پکارے تو وہ اس کی دعا سنتا اور قبول کرتا ہے۔
جیسا کہ آیت کے آخر میں فرمایا کہ ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں۔ اس لئے مشکل حالات میں آفات و بلیات کو ٹالنے کے لئے آیت کریمہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ندا کی جائے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(عمل الیوم واللیلۃ (656) ص 416 واللفظ لہ مسند احمد 1/170 مستدرک حاکم 1/505، 2/353 المختارہ للضیاء المقدسی۔ ترمذی، کتاب الدعوات 3505)
مچھلی والے پیغمبر کی دعا جب انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں پکارا: " لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ " تھی۔
اس دعا کے ساتھ کوئی مسلمان کسی بھی چیز کے متعلق دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول کیا یہ دعا یونس علیہ السلام کے ساتھ ہی خاص ہے یا عام مومنین کے لئے بھی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کیا تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنتا: ہم نے اسے غم سے نجات دی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں۔"
یعنی یہ دعا صرف یونس علیہ السلام کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ تمام ایمان والوں کے لئے بھی ہے جب بھی ایمان والے اللہ تعالیٰ کو آفات و بلیات، مشکلات و مصائب، دکھ و آلام الغرض کسی بھی کام کے لئے پکاریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا سن کو قبول کرے گا اس لئے جو شخص ضرورت مند ہے وہ خود یہ دعا اللہ کے حضور کرے۔ اپنی حاجت اللہ کے سامنے رکھ کر اسے پکارے۔
عامۃ الناس کی اکثریت اس بات میں گرفتار ہے کہ وہ کھجور کی گٹھلیاں یا اس جیسی دیگر اشیاء جمع کر کے لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں اور آیت کریمہ پڑھواتے ہیں یہ ایک رواج بن چکا ہے اور بالکل بے ثبوت اور بے بنیاد چیز ہے ہر انسان کو اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار کرنا چاہیے خود اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے اس کی عبادات کی طرف متوجہ ہو۔ توبہ و استغفار سے کام لے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
وہ ضرور معاف کرے گا اور اپنی رحمت بے پایاں سے کرم کرے گا۔ ہاں زندہ انسان سے جا کر دعا بھی کروا سکتا ہے لیکن لوگوں کا ہجوم بلوا کر سنگ ریزوں یا گٹھلیوں پر آیت کریمہ کا ورد کروانا سوائے ایک رواج کے اور کچھ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث اور قرآن حکیم کی آیت سے صرف یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جس مسلم کو کوئی حاجت ہے وہ خود اللہ تعالیٰ سے ان کلمات کے ذریعے دعا کرے اللہ تعالیٰ ہماری آفات و مشکلات کا ازالہ فرمائے اور قحط سالی، دکھ درد اور ہر قسم کی بیماریوں سے شفا نصیب فرمائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب