سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) وظائف کی تعداد معلوم کرنے کا حکم

  • 21443
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1653

سوال

(103) وظائف کی تعداد معلوم کرنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وظائف کرنا مثلا 100 دفعہ درود شریف پڑھنا، یا مقسط 700 مرتبہ پڑھنا، بتائیے ان وظائف یا ان کے علاوہ کے لئے تعداد خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے یا کسی اور نے جیسے 72 مرتبہ سورہ یٰسین پڑھنا وغیرہ؟ (ذوالفقار احمد۔ راہوالی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتب احادیث میں کچھ وظائف ایسے ہیں جن کی تعداد مقرر ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کی تعداد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں کی۔

100 مرتبہ درود شریف کے متعلق کوئی صحیح حدیث مجھے معلوم نہیں۔ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے "پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری دعائیں" ص 45 میں سو بار درود شریف پڑھنے کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص صبح اور مغرب کی نمازوں کے بعد کلام کرنے سے پہلے سو بار درود پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی سو ضرورتیں پوری فرماتا ہے۔ تیس دنیا میں اور ستر آخرت میں۔ لیکن یہ روایت موضوع ہے اس کو احمد بن موسیٰ نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام ابن القیم نے " جلاء الافهام فصل الموطن الثالث والثلاثون من مواطن الصلوة عليه " (ص: 245) رقم (298) میں باسند ذکر کیا ہے اور اسی طرح علامہ سخاوی نے "القول البدیع" ص: 174 میں ذکر کیا ہے اور اس کی سند پر ضعف کا حکم بھی لگایا ہے۔

امام حاکم، احمد بن موسیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں "یہ روایات گھڑتا تھا اور اسانید کو متن سے ملا دیتا تھا" حمزہ السھمی فرماتے ہیں "اس نے مجاھیل مشائخ سے منکر روایات بیان کی ہیں جن کو کسی دوسرے نے بیان نہیں کیا۔ اس لئے محدثین نے اسے کذاب کہا ہے۔

(میزان الاعتدال 1/159 المغنی فی الضعفاء 1/96 لسان المیزان 1/235 تنزیہ الشریعۃ المرفوعہ 1/311)

امام ذھبی فرماتے ہیں: " احد الوضاعين " روایات گھڑنے والوں میں سے ایک ہے۔ (دیوان الضعفاء والمتروکین (100) ص 10)

اور اس کے دیگر روات بھی مجاہیل قسم کے ہیں علم رجال کی معروف کتب میں ان کا ذکر نہیں ملتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔

حافظ ابن مندہ نے اس روایت کو ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے جسے امام ابن القیم نے جلاء الافہام ص 242 رقم (300) میں ذکر کیا ہے اس میں فجر اور مغرب کی نماز کی قید نہیں بلکہ مطلق طور پر دن میں 100 بار پڑھنے کا ذکر ہے۔

امام ابن القیم اور علامہ سخاوی نے "القول البدیع" ص 128 میں لکھا کہ حافظ ابو موسیٰ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور دونوں بزرگوں نے اس کی تحسین نقل کر کے سکوت کیا ہے۔ حالانکہ یہ روایت بھی من گھڑت ہے۔ حافظ ابو موسیٰ بذات خود وضاع اور روایت گھڑنے والا ہے۔ اس کی تحسین کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے؟ اس کی سند میں عباس بن بکار الضبی ہے جس کے بارے میں امام دارقطنی فرماتے ہیں: کذاب۔

(المغنی فی الضعفاء 1/519 الضعفاء والمتروکین للدارقطنی 424/138)

علامہ ھیثمی فرماتے ہیں "ضعیف" ہے۔ (مجمع الزوائد 10/140)

امام عقیلی فرماتے ہیں: " الغالب على حديش الوهم والمناكير " اس کی اکثر روایات میں وہم اور نکارت ہے۔ (الضعفاء الکبیر 3/363)

امام ابن حبان فرماتے ہیں:

" لا يجوز الاحتجاج به بحال ولا كتابة حديش إلا على سبيل الاعتبارللخواص " (کتاب المجروحین 2/190)

اس سے کسی حال میں بھی حجت پکڑنا جائز نہیں اور نہ ہی اس کی روایت کو لکھنا جائز ہے سوائے خواص کے لئے، اعتبار کے سبیل پر۔ امام ابن عدی اسے منکر الحدیث قرار دیتے ہیں۔ (الکامل 5/1665)

اسی طرح اس کا استاد ابوبکر الھذلی جو اس کا ماموں بھی ہے، قابل حجت نہیں اور باتفاق محدثین متروک ہے۔ امام یحییٰ بن سعید، امام یحییٰ بن معین، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو حاتم رازی، امام نسائی، امام جوزجانی، امام یعقوب بن سفیان، امام ابو احمد الحاکم وغیرھم نے اسے ضعیف، متروک اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔

(تھذیب 6/316 المغنی فی الضعفاء 2/572 میزان الاعتدال 4/734)

2۔ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من صلى على مائة غفرله "

"جس نے مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھا، اس کی بخشش کر دی گئی۔"(تاریخ اصفھان 1/95)

اس روایت کی سند میں سفیان اور اعمش دو مدلس راوی ہیں جن کی تصریح بالسماع موجود نہیں اور احمد بن عبدالرحمٰن بن بھر السعدی کا فی الحال مجھے ترجمہ نہیں ملا۔

3۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من صلى علي صلاة واحدة صلى الله عليه عشرا ومن صلى علي عشرا صلى الله عليه مائة ومن صلى علي مائة كتب له بين عينيه براءة من النفاق وبراءة من النار وأسكنه الله يوم القيامة مع الشهداء " (طبرانی اوسط (7231) 8/115 طبرانی صغیر)

"جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے اور جس نے مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھا اللہ اس پر سو رحمتیں نازل کرتا ہے اور جس نے مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں کے درمیان نفاق اور جہنم سے براءت لکھ دیتا ہے اور قیامت والے دن اسے شہداء کے ساتھ جگہ دے گا۔"

امام منذری فرماتے ہیں:

" وفى اسناده ابراهيم بن سالم بن شبل الهجمى لا أعرفه بجرح ولا عدالة " (الترغیب والترھیب 2/495)

اس کی سند میں ابراہیم بن سالم کے بارے جرح اور تعدیل میں نہیں جانتا۔ اس طرح اس کی سند میں عبدالعزیز بن قیس بن عبدالرحمٰن مجہول ہے۔ (تقریب ص 215)

4۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من صلى يوم الجمعة مائة مرة جاء يوم القيامة ومعه نور لو قسم ذلك النور بين الخلق كلهم لوسعهم "

"جس نے جمعہ والے دن مجھ پر سو دفعہ درود پڑھا، وہ قیامت والے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک نور ہو گا اور اگر وہ نور ساری مخلوق پر تقسیم کر دیا جائے تو انہیں کافی ہو گا۔"

(حلیۃ الاولیاء 8/47 ترتیب البغیہ للھیثمی 2/327)

یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں محمد بن عجلان مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔ اس میں سماع کی تصریح نہیں اور اس میں کچھ مجہول راوی ہیں۔

الغرض مجھے ایسی کوئی صحیح روایت نہیں ملی جن میں درود شریف کے متعلق 100 کے عدد کی تعیین ہو البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے کا حکم احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ؛ فَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا " (صحیح الجامع الصغیر 1/263)

"جمعہ والے دن اور جمعہ والی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجو۔ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا۔"

مزید احادیث صحیح الجامع اور سلسلہ صحیحہ میں ملاحظہ کریں۔ البتہ صبح و شام دس دس بار درود پڑھنے کی حدیث موجود ہے جسے امام منذری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن قرار دیا ہے۔

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من صلى عليَّ حين يصبح عشرًا ، وحين يمسي عشرًا ، أدركته شفاعتي يوم القيامة "

"جس نے مجھ پر صبح و شام دس دس بار درود شریف پڑھا قیامت والے دن اسے میری شفاعت نصیب ہو گی۔"

امام منذری فرماتے ہیں:

" رواه الطبرانى باسنادين احدهما جيد "

اسے امام طبرانی نے دو سندوں سے روایت کیا ہے ان میں سے ایک جید ہے اور علامہ البانی بھی اسے حسن قرار دیتے ہیں۔ (صحیح الترغیب والترھیب 1/245،246)

علامہ ھیثمی بھی اس کی ایک سند کو جید قرار دیتے ہیں۔

(مجمع الزوائد 10/123، 10/163 طبع جدید)

لہذا صبح و شام کے اذکار میں 10 بار درود شریف کا عدد صحیح ثابت ہے اسے معمول بنائیں اور پھر چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے درود شریف پڑھتے رہیں بلکہ اگر آپ اپنی ساری دعاؤن کی جگہ درود ہی پڑھتے رہیں تو یہ بھی درست ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رات کا دو تہائی حصہ گزر جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور فرماتے لوگو اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو۔ آ گیا زلزلے کا جھٹکا، اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا۔ موت آگئی اپنی ہولناکیوں کے ساتھ، موت آگئی اپنی ہولناکیوں کے ساتھ۔

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا اے اللہ کے رسول:

"إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟ فَقَالَ : مَا شِئْتَ . قَالَ قُلْتُ الرُبُعَ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قُلْتُ النِّصْفَ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قَالَ قُلْتُ فَالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ : مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ . قُلْتُ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا ؟ قَالَ : إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ"

"میں آپ پر کثرت سے درود پڑھا کرتا ہوں۔ میں درود کی آپ کے لئے کیا مقدار رکھوں (یعنی اور دعاؤں کے مقابلے میں) آپ نے فرمایا: جس قدر تو چاہے۔ عرض کیا کیا ایک چوتھائی؟ فرمایا جتنا تو چاہے۔ اگر زیادہ کرے تو بہتر ہے۔ عرض کیا نصف فرمایا: جتنا تو چاہے۔ اگر زیادہ کرے تو بہتر ہے عرض کیا۔ دو تہائی۔ فرمایا: جتنا تو چاہے۔ اگر زیادہ کرے تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا میں تمام (وقت) آپ کے درود کے لیے وقف کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی حالت میں تیرے مقاصد کی کفایت کی جائے گی اور تیرے گناہ بخش دیے جائیں گے۔"

(سنن الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ (2457) مستدرک حاکم 2/513 مسند احمد 5/136 مسند عبد بن حمید بحوالہ جلاء الافھام ص 40 رقم (59)

یا مقسط 700 بار اور سورہ یاسین 72 مرتبہ پڑھنا یہ تعداد کہیں ثابت نہیں۔ لوگوں کے اپنے مقرر کردہ اعداد ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض اذکار عدد کے تعین کے بغیر اور بعض عدد کے تعین کے ساتھ ثابت ہیں جن کی تفصیل کے لئے آپ راقم کی کتب "باغیچہ جنت" "حصن المجاہد" اور "پریشانیوں سے نجات" ملاحظہ کریں جن میں احادیث صحیحہ و حسنہ سے اذکار و ادعیہ درج کئے گئے ہیں اور جن کی تعداد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے، وہ بھی واضح کی گئی ہے اور جو مطلق طور پر دعائیں مذکور ہوئی ہیں، انہیں بغیر تعداد کے ہی تحریر کیا گیا ہے۔ وباللہ التوفیق

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الاذکار-صفحہ519

محدث فتویٰ

تبصرے