سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) ہاتھ کے اشارے سے سلام کہنا

  • 21435
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1957

سوال

(95) ہاتھ کے اشارے سے سلام کہنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ہاتھ کے اشارے سے سلام کہنا درست ہے۔ سرکاری دفاتر میں تو لوگ اپنے آفیسرز کو سلیوٹ مارتے ہیں جس میں صرف ہاتھ کے ساتھ اشارہ ہی ہوتا ہے زبان سے کلمات بھی ادا نہیں ہوتے کیا یہ یہودونصاریٰ کی عادات میں سے نہیں ہے؟ (ایک سائل۔ بہاولنگر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوران ملاقات ہمیں ایک دوسرے کو سلام کہنا چاہیے تاکہ ہماری محبت میں اضافہ ہو اسی طرح سلام کے ساتھ مصافحہ کرنا بھی مسنون ہے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اعبدو الرحمن وأطعمو الطعام، وأفشو السلام، تدخلوا الجنان)

(الادب المفرد باب افشاء السلام (1010) مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

"رحمان کی عبادت کرو اور (مساکین کو) کھانا کھلاؤ، اور سلام کو عام کر دو تم جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے۔"

ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا ولا تومنوا حتى تحابوا الا أدلكم على ما تحابون به؟ قالو: بلى يا رسول الله قال: أفشو السلام بينكم)

(الادب المفرد، باب افشاء السلام (1009) صحیح مسلم، کتاب الایمان: 93)

"تم اتنی دیر تک جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک ایمان نہیں لاؤ گے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے یہاں تک کہ تم آپس میں محبت کرنے لگو کیا میں تمہاری رہنمائی ایسے کام پر نہ کروں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو انہوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں سلام کو پھیلا دو۔"

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ آپس میں سلام کو عام کرنے کا حکم ہے اور یہ ہماری محبت کا ذریعہ ہے لیکن صرف ہاتھ کے اشارے کے ساتھ سلام کرنا درست نہیں یہ یہودونصاریٰ کا فعل ہے جس سے ہمیں روکا گیا ہے اور مختلف محکموں میں جو سلیوٹ کا طریقہ کار رائج ہے یہ بھی انہیں کی تقلید کا نتیجہ ہے مسلمان حکمرانوں اور عامۃ الناس کے لیے درست نہیں۔

"جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تسلموا تسليم اليهود والنصارى فإن تسليمهم بالأكف والرؤوس والإشارة)

(السنن الکبری للنسائی 2/92 (10172) عمل الیوم واللیلۃ (340) سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (1783)

یہودونصاریٰ کے سلام کی طرح سلام نہ کرو بےشک ان کا سلام ہتھیلیوں سروں اور اشارہ سے ہوتا ہے اس کا ایک شاھد عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے المعجم الاوسط للطبرانی 8/184،185 (7376) میں موجود ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری 11/19 میں اس کی سند کو جید قرار دیا ہے یہ حدیث مختلف شواھد کی وجہ سے حسن ہے اور ترمذی کتاب الاستئذان باب ما جاء فی کراھیۃ اشارہ الید بالسلام (2695) میں موجود ہے۔

عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:

" كانوا يكرهون التسليم باليد "

(الادب المفرد، باب من سلم اشارۃ: 1035)

سلف صالحین ہاتھ کے ساتھ سلام کو ناپسند کرتے تھے پس معلوم ہوا کہ ہمیں سلام کے کلماتِ مسنونہ ادا کرنے چاہئیں۔ صرف ہاتھ کے ساتھ اشارہ کرنا یا سر ہلانا یا ہتھیلی کے ساتھ سلام نہیں کرنا چاہیے۔

یہ یہودونصاریٰ کا طریقہ ہے سلف صالحین اسے پسند نہیں کرتے تھے البتہ حالت نماز میں کوئی سلام کہہ دے یا دور سے کوئی سلام کہے جو سنا نہ جا سکتا ہو تو سلام کے الفاظ کے ساتھ ہاتھ کا اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(ويستثنى من ذلك حالة الصلاة فقد وردت أحاديث جيدة أنه صلى الله عليه وسلم رد السلام وهو يصلي إشارة ، منها حديث أبي سعيد " أن رجلا سلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي فرد عليه إشارة " ومن حديث ابن مسعود نحوه ، وكذا من كان بعيدا بحيث لا يسمع التسليم يجوز السلام عليه إشارة ويتلفظ مع ذلك بالسلام) (فتح الباری 11/19)

"ہاتھ کے اشارے سے نماز کی حالت میں سلام مستثنیٰ ہے اس لیے کہ جید اور عمدہ حدیثیں مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت نماز میں اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دیا ان میں سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ کو حالت نماز میں ایک آدمی نے سلام کہا آپ نے اشارے سے اس کا جواب دیا اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس طرح ہے اسی طرح جو شخص دور ہو، سلام کی آواز نہ سنتا ہو، اس کو بھی اشارے کے ساتھ سلام کہنا جائز ہے اور اس کے ساتھ سلام کے الفاظ بھی ادا کرے۔" ھذا ما عندی اللہ اعلم بالصواب

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الاداب-صفحہ471

محدث فتویٰ

تبصرے