سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(94) نافرمان اولاد کی وراثت سے محرومی

  • 21434
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1926

سوال

(94) نافرمان اولاد کی وراثت سے محرومی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی اپنی زندگی میں ایک بیٹے کو جائیداد کا حق نہیں دیتا وہ اس لیے کہ وہ بیٹا والدین کی خدمت نہیں کرتا برا سلوک کرتا ہے۔ اس بنا پر وہ آدمی دوسرے بیٹوں میں اپنی ساری کی ساری جائیداد تقسیم کر دیتا ہے اور ایک بیٹے کو حق نہیں دیتا۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے یا غلط؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا

(حاجی محمد اقبال طیبہ زرعی کارپوریشن کیلاسکے ضلع گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کی جائیداد جو وفات کے بعد تقسیم کی جاتی ہے اسے وراثت و ترکہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جو وہ اپنی زندگی میں تقسیم کرتا ہے، اسے ہبہ کہا جاتا ہے۔ وراثت سے محرومی نافرمانی کی بنا پر نہیں ہو سکتی۔ وراثت سے محرومی یا تو باپ اور بیٹے کے ادیان مختلف ہونے سے ہے جیسے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا يتوارث اهل ملتين شىء)

"دو مختلف دینوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔"

(مسند احمد 2/178، ابوداؤد: 2911، ابن ماجہ 2731، دارقطنی 4/75، ابن السکن بحوالہ التلخیص الحبیر: 3/84 (1357) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ارواء الغلیل (1668) 6/120-121)

اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا يرث المسلم الكافر، ولا الكافر المسلم)

"مسلم کافر کا اور کافر مسلم کا وارث نہیں بنتا۔"

(صحیح البخاری 6764، صحیح مسلم 1/1614، المؤطا للمالک 2/519، مسند الطیالسی 1435، مسند احمد 5/200، دارمی 2/370، ابوداؤد 2909، ترمذی، 2107، ابن ماجہ 2729، دارقطنی 4/61، بیہقی 6/217)

اسی طرح قاتل مقتول کا وارث نہیں بنے گا۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا يرث المسلم الكافر، ولا الكافر المسلم)

"قاتل کسی بھی چیز کا وارث نہیں بنے گا۔"

(ابوداؤد 4564، نسائی 8/42-43)

امام ابن عبدالبر نے اس حدیث کو قوی قرار دیا ہے۔

(الروضۃ الندیہ) اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارواء الغلیل 1671 میں صحیح قرار دیا ہے۔

نافرمان اولاد کو وراثت سے محروم کرنے کی کوئی دلیل راقم کے علم میں نہیں۔ یہ بات بالکل صحیح اور درست ہے کہ اولاد کو اپنے والدین کی خدمت کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور نافرمان اولاد کو وعظ و نصیحت اور مختلف مناسب حال احکام سے سمجھانا چاہیے۔ تاکہ اولاد نافرمانی سے باز رہے اور جو مال والا اپنی اولاد میں خود تقسیم کرے اس میں انصاف لازم ہے۔ اگر ایک یا دو بیٹوں کو کچھ مال دیا ہے تو باقی اولاد کو بھی اس طرح دے وگرنہ پہلوں سے بھی واپس لے لے۔ جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا پھر جب معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آیا آپ نے فرمایا " أكل ولدك نحلت مثل هذا؟" کیا تم نے اس کی مثل اپنی ساری اولاد کو دیا ہے تو انہوں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " فارجعه " اس کو واپس لے لو۔

(دیکھیں صحیح البخاری 2586، صحیح مسلم 9/1623، صحیح مسلم 13/1623 میں یہ الفاظ بھی ہیں

" اتقوا الله واعدلوا فى اولادكم فرجع أبى فى تلك الصدقة "

"اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل سے کام کرو تو میرے باپ نے اس صدقہ سے رجوع کر لیا۔

اور صحیح البخاری (2578) میں صدقہ کی بجائے عطیہ کا ذکر ہے۔ اور مسند احمد 4/268 میں ہے آپ نے فرمایا:

" لا تشهدنى على جور إن لبنيك عليك من الحق أن تعدل بينهم "

"تم مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ بلاشبہ تیری اولاد کا تیرے اوپر حق ہے کہ تو ان کے درمیان عدل سے کام لے۔"

اس طرح مسند احمد 4/275،278،375 و ابوداؤد 3544، نسائی 3687 میں یوں الفاظ ہیں

" اعدلوا بين ابناءكم اعدلوا بين ابناءكم ، اعدلوا بين ابناءكم "

تین مرتبہ آپ نے کہا تم اپنے بیٹوں کے درمیان عدل سے کام لو۔

صحیح مسلم 19/1624 میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہا میرے بیٹے کو ایک غلام دو اور میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لو تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: بےشک فلاں کی بیٹی نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام دے دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس لڑکے کے اور بھائی ہیں؟ انہوں نے کہا:

ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فكلهم أعطيت مثل ما اعطيته؟

کیا جو تو نے اس کو دیا ہے اس کی مثل ان سب کو دیا ہے انہوں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا: یہ درست نہیں ہے اور میں صرف حق بات پر ہی گواہی دیتا ہوں۔

مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہو گیا ہے کہ والد اپنی زندگی میں جو عطیات و ھدایا اپنی اولاد کو دے گا وہ سب میں برابر عدل و انصاف سے تقسیم کرے گا۔ بعض اولاد کو محروم کرنا اور بعض کو دینا ظلم ہے۔ ایسے قضیے اور معاملے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت و گواہی نہیں دی۔ لہذا سائل کو یہ شرعی احکامات مدنظر رکھنے چاہئیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں اپنی اولاد کی تربیت ابتداء سے ہی صحیح منہج پر کرنی چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر والدین کے فرمان بردار بن سکیں اور والدین کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب المیراث-صفحہ464

محدث فتویٰ

تبصرے