ایک آدمی اپنی زندگی میں ایک بیٹے کو جائیداد کا حق نہیں دیتا وہ اس لیے کہ وہ بیٹا والدین کی خدمت نہیں کرتا برا سلوک کرتا ہے۔ اس بنا پر وہ آدمی دوسرے بیٹوں میں اپنی ساری کی ساری جائیداد تقسیم کر دیتا ہے اور ایک بیٹے کو حق نہیں دیتا۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے یا غلط؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا
(حاجی محمد اقبال طیبہ زرعی کارپوریشن کیلاسکے ضلع گوجرانوالہ)
انسان کی جائیداد جو وفات کے بعد تقسیم کی جاتی ہے اسے وراثت و ترکہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور جو وہ اپنی زندگی میں تقسیم کرتا ہے، اسے ہبہ کہا جاتا ہے۔ وراثت سے محرومی نافرمانی کی بنا پر نہیں ہو سکتی۔ وراثت سے محرومی یا تو باپ اور بیٹے کے ادیان مختلف ہونے سے ہے جیسے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دو مختلف دینوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔"
(مسند احمد 2/178، ابوداؤد: 2911، ابن ماجہ 2731، دارقطنی 4/75، ابن السکن بحوالہ التلخیص الحبیر: 3/84 (1357) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ارواء الغلیل (1668) 6/120-121)
اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مسلم کافر کا اور کافر مسلم کا وارث نہیں بنتا۔"
(صحیح البخاری 6764، صحیح مسلم 1/1614، المؤطا للمالک 2/519، مسند الطیالسی 1435، مسند احمد 5/200، دارمی 2/370، ابوداؤد 2909، ترمذی، 2107، ابن ماجہ 2729، دارقطنی 4/61، بیہقی 6/217)
اسی طرح قاتل مقتول کا وارث نہیں بنے گا۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قاتل کسی بھی چیز کا وارث نہیں بنے گا۔"
(ابوداؤد 4564، نسائی 8/42-43)
امام ابن عبدالبر نے اس حدیث کو قوی قرار دیا ہے۔
(الروضۃ الندیہ) اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارواء الغلیل 1671 میں صحیح قرار دیا ہے۔
نافرمان اولاد کو وراثت سے محروم کرنے کی کوئی دلیل راقم کے علم میں نہیں۔ یہ بات بالکل صحیح اور درست ہے کہ اولاد کو اپنے والدین کی خدمت کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے اور نافرمان اولاد کو وعظ و نصیحت اور مختلف مناسب حال احکام سے سمجھانا چاہیے۔ تاکہ اولاد نافرمانی سے باز رہے اور جو مال والا اپنی اولاد میں خود تقسیم کرے اس میں انصاف لازم ہے۔ اگر ایک یا دو بیٹوں کو کچھ مال دیا ہے تو باقی اولاد کو بھی اس طرح دے وگرنہ پہلوں سے بھی واپس لے لے۔ جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں ایک غلام دیا پھر جب معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آیا آپ نے فرمایا " أكل ولدك نحلت مثل هذا؟" کیا تم نے اس کی مثل اپنی ساری اولاد کو دیا ہے تو انہوں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " فارجعه " اس کو واپس لے لو۔
(دیکھیں صحیح البخاری 2586، صحیح مسلم 9/1623، صحیح مسلم 13/1623 میں یہ الفاظ بھی ہیں
"اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل سے کام کرو تو میرے باپ نے اس صدقہ سے رجوع کر لیا۔
اور صحیح البخاری (2578) میں صدقہ کی بجائے عطیہ کا ذکر ہے۔ اور مسند احمد 4/268 میں ہے آپ نے فرمایا:
"تم مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ بلاشبہ تیری اولاد کا تیرے اوپر حق ہے کہ تو ان کے درمیان عدل سے کام لے۔"
اس طرح مسند احمد 4/275،278،375 و ابوداؤد 3544، نسائی 3687 میں یوں الفاظ ہیں
تین مرتبہ آپ نے کہا تم اپنے بیٹوں کے درمیان عدل سے کام لو۔
صحیح مسلم 19/1624 میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہا میرے بیٹے کو ایک غلام دو اور میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لو تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: بےشک فلاں کی بیٹی نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو اپنا غلام دے دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس لڑکے کے اور بھائی ہیں؟ انہوں نے کہا:
ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا جو تو نے اس کو دیا ہے اس کی مثل ان سب کو دیا ہے انہوں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا: یہ درست نہیں ہے اور میں صرف حق بات پر ہی گواہی دیتا ہوں۔
مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہو گیا ہے کہ والد اپنی زندگی میں جو عطیات و ھدایا اپنی اولاد کو دے گا وہ سب میں برابر عدل و انصاف سے تقسیم کرے گا۔ بعض اولاد کو محروم کرنا اور بعض کو دینا ظلم ہے۔ ایسے قضیے اور معاملے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت و گواہی نہیں دی۔ لہذا سائل کو یہ شرعی احکامات مدنظر رکھنے چاہئیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں اپنی اولاد کی تربیت ابتداء سے ہی صحیح منہج پر کرنی چاہیے تاکہ وہ بڑے ہو کر والدین کے فرمان بردار بن سکیں اور والدین کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب