کیا کوئی وارث اپنی زندگی میں ہی اپنی وراثت اپنے وارثین میں شریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم کر سکتا ہے۔ (ابو عبدالرحمان علی پارک لاہور کینٹ)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے۔
"اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔ اگر عورتیں دو سے زیادہ ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ ہے جو میت نے چھوڑا۔"
اسی طرح فرمایا:
"مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو والدین اور سب سے زیادہ قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہے اور عورتوں کے لیے بھی والدین اور سب سے زیادہ قریبی رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے میں سے حصہ ہے تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ (اللہ نے ان کے لیے) مقرر کیا ہے۔"
تو ان آیات بینات میں الفاظ " مَا تَرَكَ ، مِّمَّا تَرَكَ موجود ہیں جو کہ حقیقت میں موت کے بعد چھوڑے ہوئے مال پر دلالت کرتے ہیں اسی طرح وراثت اور میراث کے الفاظ بھی اختتام زندگی پر دلالت کرتے ہیں لہذا ان دلائل کی رو سے انسان اپنے مال کو اپنی اولاد یا دیگر رشتہ داروں میں وراثت کے طور پر تقسیم نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص اس طرح جائیداد زندگی میں بانٹ دیتا ہے تو وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے ہاں اپنے مال میں سے کچھ حصہ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو عطیہ یا ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے۔ جیسا کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان کے والد ماجد انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے میں نے اپنی اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اس جیسا غلام دیا ہے؟
انہوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " فارجعه " اس کو واپس کر لو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ بات پسند لگتی ہے کہ وہ سب تیرے ساتھ برابر نیکی کریں؟ تو انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا تو پھر اجازت نہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا۔ عمرۃ بنت رواحہ کہنے لگیں میں اس بات پر راضی نہیں یہاں تک کہ تم اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لو تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا۔ میں نے عمرہ بنت رواحہ میں سے اپنے بیٹے کو ایک عطیہ دیا ہے اس نے مجھے امر کیا ہے کہ اے اللہ کے رسول میں اس پر آپ کو گواہ بنا لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم نے اپنے ساری اولاد کو اس جیسا عطیہ دیا ہے؟ اس نے کہا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔
اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔
تو وہ واپس پلٹے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا۔
یہ حدیث صحیح البخاری، کتاب الھبۃ، باب الھبۃ للولد (2586) اور باب الاشھاد فی الھبۃ (2587) باب لا یشھد علی شھادۃ جور (2650) صحیح مسلم، کتاب الھبات، باب کراھۃ تفضیل بعض الاولاد (1623) میں موجود ہے۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ والد اپنی زندگی میں اپنے مال میں سے کوئی چیز اپنے اولاد کو ہبہ یا عطیہ کے طور پر دے تو سکتا ہے لیکن اس صورت میں اس پر انصاف شرط ہے اور " لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ " کا اصول پیش نظر نہیں ہو گا بلکہ لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر دیا جائے گا کیونکہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کی مثل ترکہ و وراثت میں سے ملے گا جو مرنے کے بعد سے متعلق ہے۔ ان دلائل صحیحہ سے واضح ہو گیا کہ کوئی بھی آدمی اپنی جائیداد کو شرعا اپنی زندگی میں اصول وراثت پر تقسیم کرنے کا مجاز نہیں ہے کیونکہ حکم کا تعلق انسان کی وفات کے بعد سے ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب