سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) اشیاء کی قیمت مقرر کرنے کا حکم

  • 21426
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4124

سوال

(86) اشیاء کی قیمت مقرر کرنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتوں کا تعین کر دینا اسلام کی رو سے درست ہے؟ جیسا کہ آج کل بازاروں میں گورنمنٹ کی طرف سے اشیاء کی قیمتوں کو متعین کر کے دوکانوں پر نصب کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے اس کی وضاحت مطلوب ہے؟ (عبداللہ۔ اسلام آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بازاروں سے ضرورت کی اشیاء کا غائب ہونا اور مہنگا ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت بعض اشیاء پر کنٹرول حاصل کر لیتی ہے اور ضرورت کے مطابق عوام الناس کو مہیا نہیں کر سکتی جس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹنگ ہوتی ہے حالانکہ بازار سے کوئی چیز بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ خفیہ طریقے سے مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے نقصانات زیادہ ہو جاتے ہیں اور عوام الناس اشیائے ضرورت کو بآسانی حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ایک مرتبہ مدینہ طیبہ میں اشیاء کے نرخ بڑھ گئے جس پر لوگوں نے آپ سے آ کر شکایت کی جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

(غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ)

(ابوداؤد 3/272'3451، ترمذی 3/605، ابن ماجہ 2/761 (2200) احمد 3/156'486 مسند ابی یعلی 5/160، بیہقی 6/29 دارمی 2/249 طبرانی کبیر (761)

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مدینہ میں چیزوں کے نرخ بڑھ گئے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نرخ بہت بڑھنے لگے ہیں آپ ہمارے لئے قیمتوں پر کنٹرول کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے۔ وہی مہنگا کرنے والا ہے وہی سستا کرنے والا ہے اور وہی رزق دینے والا ہے۔ میں اس بات کا امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملوں کہ کوئی شخص مجھ سے خون یا مال میں ظلم کی بنا پر مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔"

اس حدیث کے آخری الفاظ قابل توجہ ہیں کہ "اس بات کا امیدوار ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ پر کسی کا خونی یا مالی حق نہ ہو، اس سے معلوم ہوا کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا گاہک یا دکاندار کسی ایک پر ظلم ہے جس کی ذمہ داری قبول کرنے پر آپ آمادہ نہ تھے۔

حکومت جو اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول حاصل کرتی ہے اس کی ایک صورت یہ ہے کہ حکومت اعلان کر دیتی ہے کہ فلاں فلاں اشیاء کی قیمت یہ ہے۔ اس سے زیادہ قیمت پر یہ اشیاء فروخت نہیں کی جا سکتیں۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے اشیاء کی قیمتیں مقرر کر کے باقاعدہ لسٹ دکانوں پر آویزاں کر دی جاتی ہے تاکہ دوکاندار اس سے زیادہ قیمت وصول نہ کر سکے اور اس بات کی چیکنگ کے لیے گاہے بگاہے حکومت چھاپے بھی مارتی ہے لیکن اس کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ دوکاندار اس ریٹ پر ردی اور ناکارہ اشیاء فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر کوئی خریدار خالص اور عمدہ چیز کا طلبگار ہو تو اس سے علیحدہ ریٹ طے کر لیتے ہیں، البتہ اگر کوئی حکومتی آدمی آ کر دوکاندار سے اس مقررہ ریٹ پر چیز طلب کرے تو دوکاندار اسے خالص چیز مہیا کرتا ہے تاکہ کہیں وہ پکڑا نہ جائے اور جرمانہ یا سزا سے بچ جائے۔

اس کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دوکاندار اپنی کمیٹی کے افراد کے ذریعہ یا کسی اور واسطے سے حکومتی عملہ کو رشوت دے کر بددیانتی پر مبنی حرکات رذیلہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور گاہک کو ناخالص، ردی، بے کار اور گھٹیا اشیاء فروخت کرتے ہیں۔

ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ حکومت جس چیز پر کنٹرول کرتی ہے ملک کے مختلف حصوں میں اس کے ڈپو مقرر کر دیتی ہے تاکہ ان ڈپوؤں سے وہ چیز مقرر ریٹ پر حاصل کی جا سکے۔

اس میں بھی کئی ایک بددیانتیاں جنم لیتی ہیں بلکہ ڈپو ہولڈرز کئی بددیانتیوں کے مرتکب ہیں، وہ اپنے واقف کار، عزیز و اقارب وغیرہ کو تو اشیاء فراہم کرتے ہیں جب کہ دیگر بہت سے افرادکو محروم رکھتے ہیں بلکہ بہت سے افراداس طرح کے ڈپوؤں پر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔

عورتیں اور بچے سارا دن لائنوں میں لگے ذلت و خواری کو اپنا مقدر بنا رہے ہوتے ہیں اور اکثر ڈپو ہولڈرز ایسے افرادسے رشوت وصول کر کے اشیاء کو بچا کر بازار میں مختلف دوکانداروں کو بلیک کرتے ہیں۔ اس طرح چور بازاری کا نیا دروازہ کھل جاتا ہے۔

بہرکیف اس طرح کی کئی خربیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن سے خریدار اور دوکاندار کے درمیان کئی جرائم جنم لیتے ہیں مزید تفصیل کے لیے "تجارت اور لین دین کے مسائل و احکام" ملاحظہ کریں قاضی شوکانی مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

" وَقَدِ اسْتُدِلَّ بِالْحَدِيثِ وَمَا وَرَدَ فِي مَعْنَاهُ عَلَى تَحْرِيمِ التَّسْعِيرِ وَأَنَّهُ مَظْلِمَةٌ وَوَجْهُهُ أَنَّ النَّاسَ مُسَلَّطُونَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَالتَّسْعِيرُ حَجْرٌ عَلَيْهِمْ وَالْإِمَامُ مَأْمُورٌ بِرِعَايَةِ مَصْلَحَةِ الْمُسْلِمِينَ وَلَيْسَ نَظَرُهُ فِي مَصْلَحَةِ الْمُشْتَرِي بِرُخْصِ الثَّمَنِ أَوْلَى مِنْ نَظَرِهِ فِي مَصْلَحَةِ الْبَائِعِ بِتَوْفِيرِ الثَّمَنِ وَإِذَا تَقَابَلَ الْأَمْرَانِ وَجَبَ تَمْكِينُ الْفَرِيقَيْنِ مِنَ الِاجْتِهَادِ لِأَنْفُسِهِمْ وَإِلْزَامِ صَاحِبِ السِّلْعَةِ أَنْ يَبِيعَ بِمَا لَا يَرْضَى بِهِ مُنَافٍ لِقَوْلِهِ تَعَالَى إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تراض وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ" (نیل الاوطار 5/248)

اس حدیث اور جو اس معنی کی احادیث وارد ہوئی ہیں ان سے قیمتوں کے کنٹرول کی حرمت میں استدلال کیا گیا ہے اور قیمتوں پر کنٹرول کرنا ظلم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے لوگوں کو اپنے مالوں کے تصرف کا اختیار دیا گیا ہے اور قیمتوں پر کنٹرول ان پر مالی تصرف میں رکاوٹ ہے جب کہ حاکم وقت مسلمانوں کی خیرخواہی کی رعایت پر مامور ہے۔

اس کے لیے گاہک کو سستے داموں اشیاء کی خریداری میں نظر کرنا دوکاندار کے لئے قیمت بڑھانے کی مصلحت میں نظر کرنے سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ جب یہ دونوں معاملے آمنے سامنے ہوں تو اس وقت لازم ہے کہ فریقین (دوکاندار اور گاہک) کو اپنے معاملے میں اجتہاد کا اختیار دیا جائے سودا بیچنے والے کو اس کی مرضی کے خلاف بیچنے پر پابند کرنا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے خلاف ہے "اے ایمان والو اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس صورت کے تمہاری آپس میں تجارت رضا مندی سے ہو" یہ مذہب جمہور علماء کا ہے۔ (نیل الاوطار 5/248)

اسلامی معاشرے میں چونکہ تجارت بالکل آزاد ہے، اس لیے ہر چیز کھلے عام فروخت ہونی چاہیے یہ بات بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تاجر برادری کے لوگ متقی، پرہیزگار اور صالح ہوتے تھے اور وہ مناسب ریٹ پر اشیاء فروخت کرتے تھے۔ قیمتوں کا اتار چڑھاؤ تاجروں کی بدنیتی پر نہیں ہوتا تھا بلکہ سامان فروخت کی کمی اور اس کی کثرت طلب کی بنا پر قیمتیں چڑھ گئی تھیں۔

(دیکھئے: مجلۃ البحوث الاسلامیہ ج1 عدد رابع ص 208)

لیکن جب اشیاء خوردنی میں گرانی اور ریٹ کا اضافہ خود تاجروں کا پیدا کردہ ہو اور عامۃ الناس کے پاس اشیاء خوردونوش آسانی سے نہ پہنچنے دیتے ہوں تو یہ تاجر برادری کا ظلم ہے اور عوام الناس کی بھلائی کی خاطر ان کا ظلم روکنا عین انصاف اور حکومت کا حق ہے تو اس ایک صورت میں اگر کنٹرول ریٹ ہو جائے تو کوئی شرعی قباحت نہیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کنٹرول کرنے سے انکار کیا تھا تو اس کے اسباب قدرتی تھے تاجر برادری کے پیدا کردہ نہیں تھے۔ باہر سے غلہ نہیں پہنچ رہا تھا۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

"کنٹرول ریٹ بعض صورتوں میں ناجائز اور ظلم ہے اور بعض صورتوں میں عدل و انصاف اور جائز ہے۔"

جب کنٹرول ریٹ ایسی صورت پر مشتمل ہو کہ لوگوں کے اوپر ظلم کیا جائے اور ان کو ناحق کسی چیز کو ایسی قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے جسے وہ ناپسند کرتے ہوں یا جو چیز اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مباح رکھی ہے، اس سے انہیں روکا جائے تو یہ حرام ہے۔

جب کنٹرول ریٹ عدل و انصاف پر مبنی ہو جیسا کہ انہیں کسی چیز کا جتنا معاوضہ مناسب ہو اس کے لیے انہیں مجبور کیا جائے اور جو کام ان پر حرام ہے اس کے کرنے سے روکا جائے جیسے مناسب معاوضے سے زیادہ قیمت لینا تو یہ کنٹرول جائز ہے بلکہ واجب ہے۔

پہلی صورت کی مثال سیدنا انس والی حدیث دلیل ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

(فإذا كان الناس يبيعون سلعهم على الوجه المعروف من غير ظلم منهم، وقد ارتفع السعر إما لقلة الشيء، وإما لكثرة الخلق، فهذا إلى الله. فإلزام الخلق أن يبيعوا بقيمة بعينها إكراه بغير حق)

"جب لوگ اپنے سودے کو معروف طریقے پر ظلم کئے بغیر فروخت کریں اور قیمت یا تو اشیاء کی کمی کی وجہ سے بڑھ جائے یا لوگوں کی کثرت کی بنا پر تو یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ایسی صورت میں مخلوق کو مقررہ قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کرنا ناحق ہے۔"

(وأما الثاني: فمثل أن يمتنع أرباب السلع من بيعها ، مع ضرورة الناس إليها إلا بزيادة على القيمة المعروفة ، فهنا يجب عليهم بيعها بقيمة المثل . ولا معنى للتسعير إلا إلزامهم بقيمة المثل . والتسعير هاهنا إلزام - بالعدل الذي ألزمهم الله به)

"اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ سودا بیچنے والے افراد لوگوں کی ضرورت کے باوجود زیادہ قیمت کی وصولی کے بغیر بیچنا روک دیں تو ان پر واجب ہے کہ وہ سودے کو مناسب قیمت پر بیچیں ایسی صورت میں (جب وہ زیادہ قیمتیں وصول کریں) انہیں مناسب قیمت کا پابند کر دینا چاہیے ان پر لازم ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے لازم ٹھہرائی ہے اسے لازم پکڑیں۔"(الحسبۃ الامام ابن تیمیہ ص 20)

تقریبا یہی بات امام ابن قیم نے الطرق الحکمیۃ ص 244'245 میں اور الفراسہ میں ذکر کی ہے۔ لہذ اگر تاجر برادری کی جانب سے ظلم ہو اور عوام الناس کی ضرورت کے باوجود بلاوجہ اشیاء کی فراہمی مناسب ریٹ پر نہ کریں تو انہیں مقررہ قیمت پر فروخت کا پابند کیا جا سکتا ہے اور اگر منڈیاں آزاد ہوں گرانی تاجر برادری کی طرف سے پیدا نہ کی گئی ہو بلکہ قدرتی طور پر اشیاء کی قلت یا عوام کی کثرت کی بنا پر ہو تو اس صورت میں کنٹرول ریٹ درست نہیں ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب البیوع-صفحہ431

محدث فتویٰ

تبصرے