سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) مکان کو گروی یا رہن رکھ کر رقم لینا

  • 21422
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2591

سوال

(82) مکان کو گروی یا رہن رکھ کر رقم لینا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے اپنا مکان دوسرے کے پاس گروی یا رہن رکھ کر کچھ رقم حاصل کی۔ گروی رکھنے والا مکان اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا آدمی اس سے کرایہ وصول کرنا چاہتا ہے کیا شریعت کی رو سے ایسا کرنا درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مذکورہ سود کی قسم سے ہونے کی وجہ سے حرام ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَمو‌ٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ ...﴿٢٩﴾... سورة النساء

"اے ایمان والو اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ۔"

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے:

(إن دماءَكم وأموالكم حرامٌ عليكم)

(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (1218) من حدیث جابر رضی اللہ عنہ)

"بلاشبہ تمہارے خون اور اموال تم پر حرام ہیں"

ان نصوص صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان کا مال مسلمان پر اصلا حرام ہے جواز تصرف کے لئے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں مفقود ہے گروی رکھنے والا شخص اپنی گروی شدہ چیز کا مالک ہے اور اس کا اپنی چیز سے فائدہ اٹھانا تو معقول ہے جب کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے اس کی حیثیت امین کی ہے اور اس کے پاس پڑی ہوئی چیز امانت ہے جو کہ رقم کے تحفظ کے لیے ہے کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت اور ناجائز ہے۔

اور حدیث میں جو خرچ کے عوض جانور کے دودھ اور سواری کرنے کی اجازت موجود ہے اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہ حدیث عمومی شرعی اصول کے منافی ہے یہ صرف سواری کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر عام قیاس کرنا درست نہیں۔ صحیح بخاری میں امام بخاری کا فہم بھی یہی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔

ایک گروہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے وہ خرچ کے عوض گروی جانور پر سواری کر سکتا ہے اور دودھ دوھ سکتا ہے اس حدیث کی وجہ سے دو فائدوں کے علاوہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔ (فتح الباری 5/144)

پھر فرماتے ہیں: جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے وہ گروی اشیاء سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا سلف صالحین سے کچھ ایسے صریح آثار بھی مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقروض آدمی کے مال سے فائدہ اٹھانا درست نہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "میں مدینہ طیبہ آیا تو میری ملاقات عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ہوئی انہوں نے کہا آپ میرے گھر آئیں تو میں آپ کو ستو اور کھجور کھلاؤں گا۔ اور آپ ایک عظیم گھر میں آئیں گے۔

پھر فرمایا: تم ایک ایسی زمین پر ہو جس میں سود عام ہے جب تمہارا کسی شخص پر حق ہو اور وہ تمہیں بھس، جو اور چارہ کا گھٹا بطور تحفہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔"

(صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مناقب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (3814)

سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں: ہمارا ایک پڑوسی مچھلی فروش تھا اس کے ذمے کسی آدمی کے پچاس درہم تھے وہ قرض دینے والے کو مچھلی ہدیہ بھیجتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا "جو وہ تجھے تحفے میں دے رہا ہے اسے حساب میں شمار کر۔"

(بیہقی، باب کل قرض جر منفعۃ فھو رباہ 5/350، کتاب التحقیق مع تنقیح 3/8 (1572)

ان آثار صحیحہ اور صریحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض لینے والے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مقروض کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے لہذا اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہو تو وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اگر وہ فائدہ اٹھائے تو اصل رقم سے حساب کر کے اتنی رقم کم کر دی جائے گی اور اگر حق سے زائد فائدہ اٹھایا تو واپس کرنا ہو گا وگرنہ سود ہو گا۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب البیوع-صفحہ421

محدث فتویٰ

تبصرے