مولانا مبشر احمد ربانی صاحب کیا عورت کی رخصتی سے پہلے اگر طلاق ہو جائے تو کیا اس کی عدت ہوتی ہے یا نہیں اور دوبارہ نکاح کے لئے کیا حکم ہے اور اسی خاوند سے جس نے اس کو پہلے طلاق دی ہے نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (خالد محمود۔ لاہور)
اگر عورت کی رخصتی سے پہلے طلاق ہو جائے تو ایسی عورت کے لئے کوئی عدت نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اے ایمان والو! جب تم ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو پس تم انہیں فائدہ دو اور اچھے طریقے سے رخصت کر دو۔"
اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ مطلقہ غیر مدخولہ کی شرعا کوئی عدت نہیں لہذا ایسی طلاق یافتہ عورت کا نکاح اس کے بعد جہاں اولیاء مناسب سمجھیں کر دیں۔ اگر پہلے شوہر کے ساتھ ہی نباہ ہو سکے اور عورت پسند کرے تو وہاں نکاح کر دیں بصورت دیگر جہاں مناسب رشتہ معلوم ہو نکاح ہو سکتا ہے۔ کوئی شرعی مانع موجود نہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب