سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) خلع اور طلاق میں فرق

  • 21410
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5410

سوال

(70) خلع اور طلاق میں فرق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت اپنے خاوند کی غیر موجودگی میں پاکستانی عدالت سے یکطرفہ خلع کی ڈگری حاصل کر لیتی ہے اس کے 6 بچے ہیں۔ 14 سال شادی کو ہو گئے ہیں۔ خاوند کی سختی اور مار کٹائی بھی شامل ہے اب اگر خاوند مار کٹائی سے باز آنے کی قسم اٹھائے اور عورت بھی دوبارہ اس کی زوجیت میں آنا چاہے تو کتاب و سنت کی رو سے مسئلہ بتائیں کہ آیا بغیر حلالہ کے وہ اپنے شوہر کی زوجیت میں آ سکتی ہے؟ (ڈاکٹر ابو طلحہ عمر فاروق معسکر ابن تیمیہ آزاد کشمیر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کے ہاں یہ بات مختلف فیہ ہے کہ خلع طلاق ہے یا فسخ نکاح صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ نکاح ہے اس کے دلائل یہ ہیں کہ:

1۔ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے جب کہ خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

(أن امرأة ثابت بن قيس اختلعت منه فجعل النبى صلى الله عليه وسلم عدتها حيضة)

(سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب فی الخلع (2229) المصنف عبدالرزاق، باب عدۃ المختلعۃ 6/506 (11858) جامع الترمذی، کتاب الطلاق، باب ماء فی الخلع (1185)

"بلاشبہ ثابت بن قیس کی بیوی نے ان سے خلع لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض مقرر کی۔"

امام خطابی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:

" هذا أدل شيء على أن الخلع فسخ وليس بطلاق "

"یہ حدیث اس بات پر سب سے زیادہ دلالت کرتی ہے کہ خلع فسخ نکاح ہے طلاق نہیں کیونکہ اگر خلع طلاق ہوتی تو اس کی عدت ایک حیض کی بجائے تین حیض ہوتی"

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

" عدة المختلعة حيضة "

(سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، باب فی الخلع (2230) بیہقی 7/450 المؤطا للمالک 2/565)

"خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔"

اسی طرح الربیع بنت معوذ بن عفراء نے عہد نبوت میں خلع کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا۔

(جامع الترمذی، کتاب الطلاق، باب ما جاء فی الخلع (1185) سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب عدۃ المختلعۃ (3497'3498)

جامع الترمذی میں ہے کہ امام اسحاق بن راھویہ فرماتے ہیں یہ مذہب قوی ہے۔ اس لئے کہ صحیح احادیث اس کی تائید کرتی ہیں۔

2۔ صحیح شرعی طلاق ایسے طہر میں ہوتی ہے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔ ثابت بن قیس کی بیوی نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر خلع کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ ایام ماہواری میں ہے یا طہر کی حالت میں۔ اس موقع پر اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خلع حیض اور جس طہر میں جماع ہوا ہو دونوں میں واقع ہو جاتا ہے جب کہ شرعی طلاق خاص طہر میں واقع ہوتی ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلع طلاق نہیں۔

3۔ ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں۔ پھر اس کے بعد عورت نے اس سے خلع لے لیا کیا وہ اس کے بعد اس سے شادی کر سکتا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہاں، خلع طلاق نہیں، اللہ تعالیٰ نے خلع والی آیت سے پہلے اور اس آخر میں طلاق کا ذکر کیا ہے اور خلع اس کے درمیان میں ہے۔ خلع کوئی چیز نہیں پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:

(الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ)

اور پڑھا: (فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ) (تفسیر ابن کثیر 1/295)

یعنی الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ میں دو رجعی طلاقوں اور فَإِن طَلَّقَهَا میں تیسری طلاق کا ذکر ہے جب کہ خلع کا حکم ان کے درمیان میں ہے اگر خلع کو بھی طلاق شمار کیا جائے تو وہ چوتھی طلاق بن جائے گی جب کہ چوتھی طلاق کا شرع میں کوئی وجود نہیں۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"وهذا الذى ذهب اليه ابن عباس رضى الله عنه من أن الخلع ليس بطلاق وانما هو فسخ هو رواية عن امير المومنين عثمان بن عفان وابن عمرو هو قول طاؤس و عكرمة وبه يقول احمد بن حنبل و اسحاق بن راهويه و ابو ثور و داؤد بن على الظاهرى وهو مذهب الشافعى فى القديم وهو ظاهر الآية الكريمة"

(تفسیر ابن کثیر 1/295)

"اسی بات کی طرف عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ گئے ہیں کہ خلع طلاق نہیں فسخ نکاح ہے اور یہی روایت امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہے اور امام طاؤس، عکرمہ، احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، ابو ثور، داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی قول ہے اور امام شافعی کا قدیم مذہب بھی یہی ہے اور آیت کریمہ کا ظاہر بھی یہی ہے اور دلائل قویہ اسی مذہب کے مؤید ہیں۔"

لہذا مذکورہ شخص اپنی سابقہ اہلیہ سے نیا نکاح کر کے اپنا گھر آباد کر لے اس لئے کہ خلع کی ڈگری سے نکاح ٹوٹتا ہے طلاق واقع نہیں ہوتی اس کے لئے حلالہ کی قطعا حاجت نہیں کیونکہ حلالہ تو شریعت اسلامیہ کی رو سے حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے اور کروانے والے پر لعنت ذکر کی ہے جیسا کہ کتب احادیث میں تصریح ہے۔"

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطلاق-صفحہ359

محدث فتویٰ

تبصرے