سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) شادی بیاہ پر بینڈ باجا بجانا

  • 21406
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1835

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کا ذریعہ روزگار شادی بیاہ پر بینڈ باجا کا اہتمام کرنا کرانا ہے۔ ٹیم ساتھ ہوتی ہے پھر جو اس گانے بجانے کا معاوضہ ملتا ہے اسے آپس میں بانٹ لیا جاتا ہے اس کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں کیا موسیقی اور گانے بجانے سے حاصل کی گئی رقم حلال ہے؟ کتاب و سنت کی رو سے راہنمائی کریں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موسیقی، گانا بجانا شرعی طور پر حرام ہے اور اس کو بطور پیشہ اختیار کرنا بھی حرام ہے اس کی حرمت اور شیطانی فعل ہونے پر درج ذیل نصوص صریحہ دلالت کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شقی و بدبخت روحوں کی مذمت کی جو قرآن کو چھوڑ کر نغمہ و سرود، موسیقی کو شوق سے سنتے اس کو روح کی غذا سمجھتے اور بطور پیشہ روزگار اپناتے ہیں اور حرام کے مرتکب ہوتے ہیں۔ فرمایا:

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان

"بعض لوگ ایسے ہیں جو غافل کرنے والے آلات خریدتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کریں اور اسے ہنسی ٹھٹھا بنائیں ایسے لوگوں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔"

اس آیت کریمہ میں کلمہ لَهْوَ الْحَدِيثِ سے مراد گانا بجانا اور آلات موسیقی ہیں جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" الغناء والله الذى لا اله الا هو يرددها ثلاث مرات " (ابن کثیر)

"اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں  لَهْوَ الْحَدِيثِ سے مراد گانا بجانا اور آلات موسیقی وغیرہ ہیں۔" (المستدرک 3/182 (3595) ط جدید)

اسے امام سیوطی نے تفسیر الدرالمنثور میں نقل کر کے ابن جریر اور المنذر، اور بیہقی کی شعب الایمان، ابن ابی شیبہ کی المصنف اور ابن ابی الدنیا کی طرف منسوب کیا ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول محدثین و مفسرین کے ہاں مشہور و ثابت ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ایک تفسیر یوں مروی ہے کہ:

" هو الغناء واشباهه کہ لَهْوَ الْحَدِيثِ سے مراد گانا بجانا اور اس کی مثل دوسرے آلات طرب ہیں۔ جابر، عکرمہ، سعید بن بجری، قتادہ، نخعی، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب اور علی بن خزیمہ رحمہ اللہ علیہم جیسے جلیل القدر و عظیم الشان مفسرین سے یہی تفسیر منقول ہے جیسا کہ ابن کثیر وغیرہ میں ہے۔

2۔ سورۃ نجم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أَفَمِن هـٰذَا الحَديثِ تَعجَبونَ ﴿٥٩ وَتَضحَكونَ وَلا تَبكونَ ﴿٦٠ وَأَنتُم سـٰمِدونَ ﴿٦١﴾... سورةالنجم

"کیا تم اس (قرآن) سے تعجب کرتے اور ہنستے ہو روتے نہیں بلکہ تم کھیل رہے ہو۔"

اس آیت میں " سَامِدُونَ " کی تفسیر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یوں نقل کی گئی ہے:

" هو الغناء بالحميريه اسمد لنا تغنى " قبیلہ بنو حمیر کی لغت میں "سمد" سے مراد گانا ہے۔ جب کوئی شخص گانا گائے تو کہا جاتا ہے اسمدلنا امام مجاہد سے بھی یہی تفسیر منقول ہے بعض نسخوں میں حمیر کی بجائے یمن کا ذکر ہے۔

(تفسیر مجاھد مع حاشیہ ص 633 المصباح المنیر ص 1335)

3۔ سورۃ بنی اسرائیل: 64 میں ہے کہ:

﴿وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنهُم بِصَوتِكَ وَأَجلِب عَلَيهِم بِخَيلِكَ وَرَجِلِكَ وَشارِكهُم فِى الأَمو‌ٰلِ وَالأَولـٰدِ ... ﴿٦٤﴾... سورة الإسراء

"اور ان میں سے تو جس کسی کو بھی اپنی آواز سے پھسلا سکتا ہے، پھسلا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا اور ان کے مال و اولاد میں شریک ہو جا۔"

اس آیت کریمہ میں " بِصَوْتِكَ " اپنی شیطانی آواز سے مراد موسیقی آلات طرب، راگ رنگ، رقص و سرود گانے بجانے، ہر فحش آواز جو اللہ کی معصیت کی طرف لے جاتی تفسیر درمنثور میں مجاہد سے اس کی تفسیر یوں منقول ہے۔

" استزل من استطعت منهم بالغناء والمزامير واللهو والباطل "

"تو ان لوگوں میں سے جس کو پھسلا سکتا ہے گانے بجانے، مزامیر، لھو لعب اور باطل طریقے سے پھسلا لے۔"

نیز دیکھیں: (المصباح المنیر ص 775)

قرآن مجید کی ان آیات مقدسہ سے واضح ہوتا ہے کہ گانا بجانا، بینڈ باجا اور دوسرے آلات موسیقی اور شیطانی آوازیں حرام اور گمراہی کے آلے ہیں ان کی خریدوفروخت کرنے پر ذلیل و رسوا کرنے والا عذاب ہے لہذا اسے ذریعہ معاش بنانا حرام ہے اور اس کے ذریعے کمائی گئی روزی طیب اور پاک ہرگز نہیں ہو سکتی۔ ایسے امور سے فی الفور باز آ جانا چاہیے اس کے بعد چند احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ ملاحظہ کیجیے۔

ابو عامر یا ابو مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ليكونن من أمتي أقوام ، يستحلون الحر والحرير ، والخمر والمعازف وينزلن اقوام الى جنب علم يروح عليهم بسارحة لهم ياتيهم يعنى الفقير لحاجة فيقولوا ارجع الينا غدا فيبيتهم الله، ويضع العلم ويمسخ اخرين قردة و خنازير الى يوم القيامة)

(صحیح البخاری، کتاب الاشربہ، سنن ابوداؤد)

"میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور باجوں کو حلال قرار دیں گے اور کچھ لوگ ایک پہاڑ کے دامن میں ٹھہریں گے مغرب کے وقت ان کا چرواہا ان کے مویشی لے کر ان کے پاس آئے گا اتنے میں ایک فقیر و محتاج آدمی ان کے پاس ضرورت سے آئے گا وہ اسے کہیں گے کل آنا۔"

اللہ تعالیٰ ان پر پہاڑ گرا کر رات کے وقت ہلاک کر دے گا اور ان میں سے بعض لوگوں کو بندر اور خنزیر بنا دے گا وہ قیامت تک اسی حالت میں رہیں گے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان الله حرم عليكم الخمر والميسر والكوبة قال وكل مسكر حرام)

"یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب اور جوا اور طبلہ حرام کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔" (ابوداؤد)

گانے بجانے کی حرمت کے بارے میں کئی احادیث صحیحہ مرفوعہ و موقوفہ موجود ہیں جن کی تفصیل ہماری کتاب "ٹی وی معاشرے کا کینسر" میں موجود ہے ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا بجانا بینڈ باجا، راگ رنگ، طبلے، سرنگیان، ڈھولک بانسری اور دیگر آلات طرب خریدنا بیچنا استعمال کرنا حرام ہے ان کے ذریعے سے کمائی گئی دولت بھی حرام ہے اور حکم الٰہی سے نازل ہونے والے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے لہذا اس حرام پیشہ سے فی الفور توبہ کی جائے اور اسے چھوڑ کر کوئی اور جائز و حلال پیشہ اختیار کیا جائے جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے وہاں سے روزہ دے گا جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور جو اللہ پر توکل کرے اللہ اسے کافی ہو جاتا ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب النکاح-صفحہ343

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ