سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) کورٹ میرج

  • 21404
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2751

سوال

(64) کورٹ میرج
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی بالغ لڑکے اور لڑکی کا ولی کی اجازت کے بغیر عدالت یا پولیس کے سامنے شادی کا اقرار کرنا نکاح کی صحیح دلیل ہے؟ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں۔ (ابو عمر۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ میں مردوزن کو بدکاری و فحاشی، عریانی و بے حیائی سے محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شیاطین اور اس کے چیلے جو مسلمان کے ازلی دشمن ہیں اسے راہ راست سے ہٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ معاشرے میں بھی امت مسلمہ میں ان اخلاق رذیلہ کو عام کرنے کے لئے مختلف یہودی ادارے اور آزادی نسواں کے نام سے اٹھنے والی تحریکیں اور یہودونصاریٰ کے تحت اسلامیات کی ڈگریاں لینے والے پروفیسر، ججز اور وکلاء اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔

اگر کوئی لڑکا اور لڑکی عشق معاشقے کی صورت میں گھر سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو انہیں پولیس اور نام نہاد عدالتوں کا سہارا مل جاتا ہے۔ وہ اپنی اس غلط محبت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے بندھن کا روپ دھار لیتے ہیں۔ آج کل نوجوان لڑکیوں کی خودسری اور گھروں سے فرار اختیار کرنے کی وبا عام ہے بدقسمتی کی بات ہے بعض نام نہاد علماء بھی انہیں سند جواز فراہم کرتے ہیں ان بدقماش اور آوارہ لڑکیوں کی تائید کر کے معزز اور شریف والدین کی بے عزتی اور بے بسی کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اس تاریک دور میں بعض جج ایسے بھی ہیں جو عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اس بے راہ روی پر قابو پانے کے لئے ایسی لڑکیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور کتاب و سنت کے دلائل کو مدنظر رکھ کر صحیح فیصلہ بھی کر جاتے ہیں۔

مثلا شیخوپورہ میں قائم خصوصی عدالت برائے انسداد دہشت گردی کے جج ظہور الحق رانا نے اپنی مرضی سے شادی کرنے والی ایک لڑکی اور اس کے مبینہ خاوند کی عبوری ضمانتیں منسوخ کر دیں جس کے بعد پولیس نے اس جوڑے کو گرفتار کر کے پس دیوار زنداں کر دیا اس جج نے اپنے فیصلے میں کہا:

اسلامی معاشرہ ایسی بے راہ روی کی اجازت نہیں دیتا اور یہ بات انصاف کے منافی ہے کہ ایک لڑکی اپنے بوڑھے ماں باپ کو تھانے اور کچہریوں میں رسوا کرے اور خودسری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاندان کی بے عزتی کا باعث بنے اور اس کے بوڑھے والدین رو رو کر اسے گھر واپس آ جانے کی منتیں کریں۔ (روزنامہ جنگ لاہور 8 اگست 1999 صفحہ نمبر 2)

لیکن ایسے فیصلے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اکثر جج حضرات یہی فیصلے کئے جا رہے ہیں کہ لڑکی اور لڑکا اگر گھر سے راہ فرار اختیار کر کے عدالت کے سامنے یا پولیس کے سامنے ہی ازدواجی زندگی کا اقرار کر لیں تو یہ نکاح صحیح شمار ہو گا جیسا کہ فیصل آباد کی پروین اور عمران کیس کی خبر روزنامہ جنگ 20 اگست 1999 صفحہ 16 کالم 6 اوکاڑہ کی عظمی اکبر اور نواز احمد کس کیس جس کی خبر روزنامہ جنگ لاہور 9 ستمبر 1999ء قصور کی رخسانہ اور خالد لو میرج کیس 14 ستمبر 1999 جنگ اخبار لاہور وغیرہ پے در پے یکے بعد دیگرے ایسے بے شمار فیصلے ہوئے ہیں جس کو پڑھ کر ایک سادہ مسلمان بھی کف افسوس ملتا ہے کہ کلمہ توحید کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں اسلام کا یہ مذاق کتاب و سنت میں بے شمار ایسے دلائل موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا وَلَعَبدٌ مُؤمِنٌ خَيرٌ مِن مُشرِكٍ وَلَو أَعجَبَكُم ...﴿٢٢١﴾... سورةالبقرة

"اور مشرکین کو نکاح کر کے نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔ البتہ غلام مومن مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ مشرک تمہیں اچھا ہی لگے۔"

امام قرطبی فرماتے ہیں:

" فى هذه الآية دليل بالنص على ان لا نكاح الا بولى "

(تفسیر قرطبی 3/49)

یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں کو خطاب کیا ہے کہ تم مشرک مردوں کو اپنی عورتیں نکاح کر کے نہ دو ہاں اگر وہ اسلام قبول کر کے مومنین میں شامل ہو جائیں تو تم ان کو اپنی بچیاں نکاح میں دے سکتے ہو۔

قرآن حکیم کے اس انداز بیان سے واضح ہو رہا ہے کہ مسلمان عورت نکاح کا معاملہ از خود طے نہیں کر سکتی بلکہ اس کا نکاح اس کے ولی کی وساطت سے ہی انجام پائے گا۔

امام ابو حیان اندلسی فرماتے ہیں:

" وقد استدل بهذا الخطاب على الولاية فى النكاح وان ذلك نص فيها " (تفسیر البحر المحیط 2/165)

اس خطاب سے استدلال کیا گیا ہے کہ نکاح میں ولی کی اجازت ضروری ہے اور یہ آیت اس مسئلے میں نص کی حیثیت رکھتی ہے۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

" هذا خطاب للأولياء ولا للنساء " (المحلی 9/421)

"یہ خطاب عورت کے اولیاء کو ہے نہ کہ عورتوں کو۔'

علامہ رشید رضا مصری فرماتے ہیں:

" والتعبير تنكحوا وتنكحوا (وفتح التاء وضمها) يشعر بأن الرجال هم الذين يزوجون انفسهم ويزوجون النساء اللوالتى يتولون امرهن وان المراة لا تزوج نفسها بالاستقلال ولا بد من الولى "

(تفسیر المنار 2/351)

"پہلے تنكحوا (تا کے زبر کے ساتھ) اور دوسرے تنكحوا (تا کی پیش کے ساتھ) تعبیر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرد ہی اپنا اور اپنی زیر ولایت عورتوں کا نکاح کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور عورت مرد کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح ازخود نہیں کر سکتی اس لئے کہ ولی کی اجازت ضروری ہے۔"

مولانا عبدالماجد دریا آبادی فرماتے ہیں:

لَا تُنكِحُوا  خطاب مردوں سے ہے تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو حکم خود عورتوں کو براہ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ یہ طرز خطاب بہت پر معنی ہے صاف اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی ص 89)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ عورت ازخود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اس کے ولی کا ہونا ضروری ہے اسی طرح ملاحظہ ہو سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 232 سورہ نور: 32)

اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے دو احادیث ذکر کرتے ہیں۔ (1) دور جاہلیت میں ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئی صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل صحیح البخاری میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں:

" فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوْ ابْنَتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا "

"ان میں ایک سے نکاح وہ ہے جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا بیٹی کے لئے پیغام نکاح بھیجتا اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا پھر نکاح کی دوسری وہ صورتیں جو ولی کے بغیر تھیں ذکر کر کے فرماتی ہیں۔"

" فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ ""

جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دئیے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج ہے۔

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک دور میں نکاح کی صرف اسی صورت کو باقی رکھا ہے جو ولی کی اجازت پر مبنی تھی اور ولی کی اجازت کے علاوہ نکاح کی ہر صورت کو منہدم کر دیا لہذا جو نکاح ولی کی اجازت کے بغیر ہو گا وہ جاہلیت کے نکاح کی صورت ہے جس کی اسلام میں گنجائش نہیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل ، فنكاحها باطل "

(ابوداؤد مع عون 7/97'99، ترمذی مع تحفہ 7/227'228، ابن ماجہ 1/580، مسند احمد 6/48'45، مسند حمیدی 1/112'113، مستدرک حاکم 2/129، بیہقی 7/105)

"جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے۔"

ولی کے بغیر نکاح نہ ہونے کا موقف عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، حسن بصری، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، عمر بن عبدالعزیز، امام سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راھویہ، امام بخاری رحمہم اللہ اجمعین اور دیگر ائمہ محدثین کا ہے تفصیل کے لئے دیکھیں راقم کی کتاب "آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں" جلد دوم اور حافظ صلاح الدین حفظہ اللہ کی کتاب "مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں"

مندرجہ بالا دلائل و براہین سے واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان عورت کو خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ یا کنواری اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ گھر سے راہ فرار اختیار کر کے اپنے آشنا کے ساتھ عدالت یا پولیس یا کسی ثالثی کونسل میں جا کر نکاح کروا لے اسے چاہئے کہ اپنا نکاح اپنے اولیاء کے ذریعے کروائے۔

ایسی بے راہ روی اور خودسری کی اسلام میں اجازت نہیں اور نہ ہی ولی کے بغیر نکاح کی گنجائش اسلام میں ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے احوال پر رحم فرمائے انہیں عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب النکاح-صفحہ334

محدث فتویٰ

تبصرے