سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے بچے کا حکم

  • 21402
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4130

سوال

(62) شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والے بچے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی ایک لڑکی سے منگنی ہو گئی ان کا آپس میں ملاپ رہتا تھا پھر شادی ہوئی تو شادی کے دو ماہ بعد اس لڑکی کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی کیا یہ بچہ حلال کا شمار ہو گا یا حرام کا کتاب و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں۔ (عبدالقدوس گلیات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی کے دو ماہ بعد بچے کی ولادت کسی طرح بھی درست نہیں ایسا بچہ جو شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہوا حلال کا کس طرح ہو سکتا ہے جب کہ چار ماہ تک روح پڑتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول کریم، صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں

(إن أحدكم يجمع خلقه في بطن أمه أربعين يومًا ثم يكون علقةً مثل ذلك، ثم يكون مضغةً مثل ذلك، ثم يبعث الله ....... الروح)

(صحیح البخاری، کتاب القدر (6594) و کتاب بدء الخلق (3208) و کتاب احادیث الانبیاء (3332) و کتاب التوحید (7454) صحیح مسلم، کتاب القدر (2643)

"بلاشبہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفے کی صورت میں) جمع کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے مثل جما ہوا خون، پھر اس کے مثل گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتہ بھیجتا ہے۔ وہ چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کے رزق، موت، نیک بخت یا بدبخت ہونے کا پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے اس کے بعد کم از کم دو ماہ اور ولادت تک لگتے ہیں۔ یعنی کم از کم شادی کے چھ ماہ بعد اگر بچہ پیدا ہو تو اسے اہل علم نے حلال کا شمار کیا ہے اور اس کے باپ کی طرف منسوب کرنا درست قرار دیا ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِو‌ٰلِدَيهِ إِحسـٰنًا حَمَلَتهُ أُمُّهُ كُرهًا وَوَضَعَتهُ كُرهًا وَحَملُهُ وَفِصـٰلُهُ ثَلـٰثونَ شَهرًا...﴿١٥﴾... سورةالاحقاف

"اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے تکلیف جھیل کر اسے اٹھائے رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا اور اس کا حمل اور دودھ چھڑائی کا زمانہ تیس (30) مہینے ہے۔"

اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت 30 مہینے یعنی اڑھائی سال بیان کی ہے۔ جس میں چوبیس (24) ماہ یعنی دو سال مدت رضاعت ہے۔ اور باقی جو 6 ماہ بچتے ہیں وہ مدت حمل ہے۔ کیونکہ مدت رضاعت کی قرآن حکیم نے خود وضاحت کر دی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالو‌ٰلِد‌ٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ...﴿٢٣٣﴾... سورةالبقرة

"مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو۔"

اس آیت کریمہ میں (حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ) کہہ کر یہ بات بتا دی ہے کہ مدت رضاعت دو برس ہی ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِو‌ٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر لى وَلِو‌ٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ ﴿١٤﴾... سورةلقمان

"اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف در تکلیف کی صورت میں اٹھائے رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے تاکہ تو میرا شکریہ ادا کرے اور اپنے والدین کا بھی میری طرف ہی پلٹ کر آنا ہے۔"

اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے (وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ) کہہ کو دودھ چھڑائی کی مدت دو برس ہی بتائی ہے۔ لہذا شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ تو حلال شمار ہو گا۔ اس سے کم مدت والا بچہ حلالی نہیں ہو گا۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(وقد استدل علي ، رضي الله عنه ، بهذه الآية مع التي في لقمان : ( وفصاله في عامين ) [ لقمان : 14 ] ، وقوله : ( والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة ) [ البقرة : 233 ] ، على أن أقل مدة الحمل ستة أشهر ، وهو استنباط قوي صحيح . ووافقه عليه عثمان وجماعة من الصحابة ، رضي الله عنهم .)

(تفسیر ابن کثیر 7/257،258، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

"اور تحقیق علی رضی اللہ عنہ نے سورۃ احقاف کی اس آیت کو سورۃ لقمان کی آیت نمبر 14 اور سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 233 کے ساتھ ملا کر استدلال کیا ہے کہ مدت حمل کم از کم چھ ماہ ہے یہ استنباط قوی اور صحیح ہے اور اس پر ان کی موفقت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک جماعت نے کی ہے۔"

امام قرطبی فرماتے ہیں:

" فالرضاع أربعة وعشرون شهراً، والحمل ستة أشهر "

(الجامع الاحکام القرآن 16/129)

"مدت رضاعت 24 چوبیس ماہ اور حمل کی مدت چھ 6 ماہ ہے۔"

علامہ شنقیطی سورہ لقمان اور سورۃ البقرہ کی مدت رضاعت والی آیات لکھ کر فرماتے ہیں:

" بين ان امد الفصال عامان، وهما أربعة وعشرون شهراً، فإذا طرحتها من الثلاثين بقيت ستة أشهر، فتعين كونها أمداً للحمل وهي أقله، ولا خلاف في ذلك بين العلماء " (تفسیر اضواء البیان 5/38، 39)

"لقمان اور بقرہ کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے دودھ چھڑائی کی مدت دو سال بیان کی ہے جو چوبیس مہینے ہیں جب چوبیس ماہ کو آپ تیس ماہ میں سے نفی کر دیں تو باقی چھ ماہ رہ جائیں گے جس سے حمل کی مدت متعین ہو جائے گی اور یہ کم از کم مدت ہے اور اس مسئلہ میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔"

امام بیضاوی فرماتے ہیں:

" وفيه دليل على ان اقل مدة الحمل ستة اشهر لانه اذا حط منه الفصال حولان لقوله تعالى: ((حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ)) بقى ذالك " (تفسیر بیضاوی 2/394)

"اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ کی رو سے جب دو سال دودھ چھڑائی کی مدت کو تیس ماہ سے نکال دیا جائے تو چھ ماہ باقی رہ جاتے ہیں۔"

تفسیر جلالین میں ہے:

" ستة اشهر اقل مدة الحمل والباقى اكثر مدة الرضاع " (ص 668)

"چھ ماہ کم از کم مدت حمل اور باقی دو سال زیادہ سے زیادہ مدت رضاعت ہے"۔

علامہ زمخشری فرماتے ہیں:

" وهذا دليل على ان اقل الحمل ستة اشهر لان مدة الرضاع اذا كانت حولين كاملين لقوله عزوجل ((حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ)) بقيت للحمل ستة اشهر " (الکشاف 4/302)

"یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اقل مدت حمل چھ ماہ ہے اس لئے کہ اللہ کے فرمان حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ کی رو سے مدت رضاعت دو سال ہے تو پھر (تیس ماہ) میں سے چوبیس ماہ نفی کر دیں) مدت حمل چھ ماہ رہ جاتی ہے۔"

علامہ محمد آلوسی لکھتے ہیں:

"واستدل بها على كرم الله تعالى وجهه و ابن عباس رضى الله عنه وجماعة من العلماء على ان اقل مدة الحمل ستة اشهر لما انه اذا حط عن الثلاثين للفصال حولان لقوله تعالى ((حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ)) يبقى للحمل ذلك وجه قال الاطباء قال جالينوس: كنت شديد الفحص عن مقدار زمن الحمل فرايت امراة ولدت لمائة و اربع و ثمانين ليلة و ادعى ابن سينا انه شاهد ذلك" (روح المعانی 26/18)

"اس آیت کریمہ سے علی کرم اللہ وجھہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور علماء کی ایک جماعت نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے اس لئے کہ جب تیس ماہ میں سے دو سال (چوبیس ماہ) دودھ چھڑائی کے نکال لیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ "مائیں اپنی اولاد کو دو سال مکمل دودھ پلائیں جن کا ارادہ مدت رضاعت کو پورا کرنے کا ہو۔" تو حمل کے لیے یہی چھ ماہ باقی رہ جاتے ہیں اور یہی بات اطباء نے بھی کہی ہے جالینوس نے کہا ہے: "زمانہ حمل کی مقدار کے متعلق میں بڑا سخت متلاشی تھا تو میں نے دیکھا ایک عورت نے 184 ایک سو چوراسی راتوں میں بچے کو جنم دیا (یعنی چھ ماہ چار پانچ راتیں) ابن سینا نے اس کے مشاہدے کا دعویٰ کیا ہے۔"

اس آیت کریمہ کی مزید تفسیر کے لئے دیکھیں:

(فتح القدیر للشوکانی 5/18، ایسر التفاسیر 4/231، تفسیر المراغی 27/18، تفسیر معالم التنزیل المعروف تفسیر بغوی 4/167، احکام القرآن لابی بکر ابن العربی 4/1697،1698، تفسیر مدارک 2/553، تفسیر قاسمی 8/445، تفسیر فتح البیان 6/300)

بعجۃ بن عبداللہ جہنی فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جھینہ کی ایک عورت سے نکاح کیا چھ مہینے پورے ہوتے ہی اسے بچہ پیدا ہو گیا اس کے شوہر نے اس بات کا ذکر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کیا آپ نے اس عورت کی جانب ایک آدمی بھیجا وہ تیار ہو کر آنے لگی تو اس کی بہن نے آہ وبکا شروع کر دی۔ اس عورت نے اپنی بہن سے کہا تم روتی کیوں ہو، اللہ کی قسم میں نے اللہ کی مخلوق میں سے اس آدمی (شوہر) کے علاوہ کسی سے اختلاط نہیں کیا۔

اللہ جو چاہے گا میرے متعلق فیصلہ کرے گا۔ جب وہ شخص اس عورت کو لے کر عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا تو یہ بات علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ تشریف لائے اور خلیفۃ المسلمین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے آپ کیا کرنے لگے ہیں؟ تو خلیفہ نے جواب دیا کہ اس عورت نے چھ ماہ پورے ہوتے ہی بچہ جنم دیا ہے کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ تو علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا تو انہوں نے کہا کیوں نہیں۔

تو علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کیا آپ نے یہ آیت نہیں سنی:

(وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا) اس کی حمل اور دودھ چھڑائی تیس ماہ ہے اور اللہ نے فرمایا ہے: (حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ) مدت رضاعت دو سال ہے جب تیس ماہ سے چوبیس ماہ وضع کر دیں تو باقی چھ ماہ رہ جاتے ہیں تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم میرا خیال ہی اس طرف نہیں گیا۔ جاؤ اس عورت کو میرے پاس لے آؤ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال میں پایا کہ وہ اس حمل سے فراغت حاصل کر چکی تھی۔ بعجۃ بن عبداللہ جھنی فرماتے ہیں: "اللہ کی قسم ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا اس عورت کا یہ بچہ اپنے باپ کے مشابہ تھا۔"

جب اس لڑکے کے والد نے اسے دیکھا تو کہا: "اللہ کی قسم یہ میرا بیٹا ہے مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔"

(تفسیر ابن کثیر 7 ص 258، تفسیر ابن ابی حاتم 10/3293،3294، تفسیر الدرالمنثور 6/9)

مذکورہ بالا توضیح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ شادی کے چھ مہینے بعد جو بچہ پیدا ہو اسے حلال شمار کیا جاتا ہے اور اس کے باپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور جو بچہ شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہو وہ کسی طرح بھی حلال کا نہیں ہو گا اس میں بدکاری کو یقینی طور پر دخل ہے۔ والدین کو اپنی اولاد کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ بچوں کو بالغ ہونے کے بعد جتنا جلدی ممکن ہو مناسب رشتہ تلاش کر کے انہیں شادی کے بندھن میں منسلک کر دیں۔ تاکہ وہ حرام کاری سے بچ سکیں جو والدین بلاوجہ اپنے بچوں کی شادیاں لیٹ کر دیتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہے جو مختلف گلی محلوں، سڑکوں، پارکوں، چوکوں، چوراہوں، ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں میں اپنی جوانی برباد کر دیتے ہیں اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ہمیں اپنی رسومات، ہندوانہ رواج کو بالائے طاق رکھ کر کتاب و سنت کے مطابق اپنی اولادوں کو بہت جلد رشتہ ازدواج میں منسلک کر دینا چاہیے۔ تاکہ وہ اپنی نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کر کے پاکباز، متقی اور صالح بن سکیں۔ آمین

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب النکاح-صفحہ324

محدث فتویٰ

تبصرے