سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) کیا زبان سے روزہ رکھنے کی نیت کرنا درست ہے؟

  • 21398
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2336

سوال

(58) کیا زبان سے روزہ رکھنے کی نیت کرنا درست ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک سے پہلے چھپنے والے تاجرانہ کیلنڈروں پر روزہ کھولنے کی نیت کے الفاظ کے ساتھ روزہ رکھنے کے الفاظ عموما دیکھے ہیں ان کی شرعی حیثیت کے متعلق قرآن و سنت کے دلائل سے واضح فرمائیں۔ (محمد الفت۔ قصور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر سال رمضان المبارک کے آنے سے قبل ہی افطاری و سحری کے اوقات کے تجارتی کیلنڈر شائع ہو کر تقسیم ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ جن پر اوقات نامہ روزہ رکھنے کی نیت: " وبصوم غد نويت من شهر رمضان " کے الفاظ بھی عموما دیکھے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے کل کے رمضان کے روزے کی نیت کی۔

جہاں تک نیت کا تعلق ہے تو تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور نیت کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے۔ مثلا اگر نماز کی نیت کی طرح روزہ کی نیت نہ کی گئی اور روزہ جیسی پابندیاں اپنے اوپر عائد کر لیں اور اس کے لوازمات کو بھی ادا کرنے میں سارا دن کوئی کوتاہی نہ کی، تو پھر بھی روزہ نہ ہو گا بلکہ فاقہ ہو گا جس کا اس کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

حدیث نبوی ہے:

(عن حفصة رضى الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ((مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلا صِيَامَ لَهُ)))

(ابوداؤد، کتاب الصوم، باب النیۃ فی الصیام (2454) ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء لا صیام لمن لم یعزم من اللیل (730) نسائی، کتاب الصیام 2332، دارمی (1705)

"ام المومنین حفصہ زوجۃ النبی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا کوئی روزہ نہیں ہے۔ تمام عبادات میں نیت ضروری ہے چاہے نماز ہو، زکوۃ ہو یا روزہ۔"

حدیث نبوی ہے:

(إنما الأعمال بالنيات) "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔"

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اعمال کی دو اقسام ہیں۔

(1) وہ اعمال جو اصل مقصد کے لئے ہوں جیسے نماز، روزہ وغیرہ کی نیت ضروری ہے اگر نیت نہ کی جائے تو باطل ہوں گے۔

(2) وہ اعمال جو اصل مقصد کے لئے تو نہیں لیکن اصل مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہوں جیسے وضو اور غسل ہے ان کی نیت اگر نہ بھی کیا جائے تو درست ہو گی۔

آخر الذکر مسئلہ میں حکم امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی رائے اور قیاس تک محدود ہے ادلہ الشریعہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی دلیل اس مسئلہ کی مؤید ہے کیونکہ " إنما الأعمال بالنيات " کے الفاظ مطلق اعمال پر دلالت کر رہے ہیں اس سے کوئی عبادت بھی (چاہے وہ واسطہ ہو یا بذات خود عبادت) مستثنیٰ نہیں ہے۔

روزے میں نیت احناف کے نزدیک بھی ضروری ہے مگر مروجہ نیت من گھڑت، اخترعی اور ایجاد کردہ ہے۔ چنانچہ احادیث مبارکہ سے جو ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نیت زبان سے ادا نہیں ہوتی بلکہ اس کا محل دل ہے دل سے نیت ضروری ہے اس بات کی شہادت فقہ کی کتب معتبرہ میں بھی موجود ہے کہ محلها القلب یعنی نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔ لیکن بالفرض اگر یہ الفاظ زبان سے ادا بھی کئے جائیں تو نیت تو نہ رہی بلکہ کلام بن گئی۔ جس کا جواب کہیں موجود نہیں ہے۔

جملہ عبادات مثلا طہارت، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ میں بالاتفاق محل نیت دل ہے زبان نہیں ہے۔

نیت کا معنی و مفہوم:

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نیت معنوی اعتبار سے کچھ جواز کی حامل ہے یا کہ نہیں۔

لغوی معنی: لغات کی کتب منجد اور قاموس وغیرہ میں نیت کے معانی دل کے قصد اور عزم کے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب نیت کرنے والا "و بصوم غد نویت من شھر رمضان" کے الفاظ جن کا مطلب ہے کہ میں نے کل کے روزے کی نیت کی، تو وہ روزہ آج کے دن کا رکھ رہا ہے، اور نیت کل کے دن کی کر رہا ہے۔ علامہ ابن منظور رقمطراز ہیں:

" اصل الغد وهو اليوم الذى ياتى بعد يومك " (لسان العرب 10/26)

"غد" کا اصل یہ ہے کہ وہ دن جو تیرے آج کے دن کے بعد ہو گا۔ مصباح اللغات 593 میں ہے کہ "آئندہ کل (Tomorrow) دور کا دن" جس کا انتظار ہو۔ نیز دیکھیں مجمع بحار الانوار 4/17 وغیرہ۔ لہذا یہ الفاظ لغوی معنی کے اعتبار سے بھی درست نہ ہوئے۔

شرعی معانی: حافظ ابن حجر فتح الباری جلد اول میں رقمطراز ہیں:

" والشرع خصصه بالارادة المتوجهة نحو الفعل لابتغاء رضاء الله وامتثال حكمه "

جس کا ترجمہ یہ ہے کہ شریعت نے نیت کے الفاظ کو اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کسی کام کے ارادہ کے لئے خاص کر دیا ہے تو اعمال میں اعتبار نیت قلبی کا ہو گا اگر اس کے خلاف زبان سے کچھ کہے تو اعتبار محض لفظوں کا نہیں ہو گا، اگر محض زبان سے نیت کرے مگر دل میں نہ ہو تو بالاتفاق یہ ناجائز ہے کیونکہ نیت تو قصد و عزم کا نام ہے لہذا روزے دار اور نمازی کو روزہ رکھنے اور نماز شروع کرنے سے پہلے الفاظ کے ساتھ نیت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں چنانچہ وہ نہ روزہ رکھنے والا: " وبصوم غد نويت من شهر رمضان "

کے الفاظ کہے اور نہ ہی نماز پڑھنے والا اس طرح کے کوئی الفاظ ادا کرے کہ میں ظہر کی نماز پڑھ رہا ہوں یا عصر کی، فرض ہیں یا نفل، چار رکعت نماز فرض واسطے اللہ تعالیٰ دے، وقت فلاں نماز، منہ طرف قبلہ کے پیچھے اس امام کے اللہ اکبر مذکورہ بالا تمام الفاظ میں سے کسی لفظ کی بھی شرع میں دلیل موجود نہیں ہے بلکہ یہ نیتیں بدعت اور من گھڑت ہیں جس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے۔

" وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ "

(ابن خزیمہ، نسائی)

"ہر گھڑی ہوئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔"

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

" من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد " (بخاری وغیرہ)

کہ جس نے کسی دین کے کام میں (نماز ہو یا روزہ) اپنی طرف سے کوئی بات شامل کی پس وہ کام مردود ہے (چاہے وہ کام کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو)

معزز قارئین! نماز اور روزہ دونوں ہی اہم ترین عبادتیں ہیں۔ لیکن اگر ان کو بھی بدعت سے نہ بچایا گیا اور اہل بدعت کے حربے کو ناکام نہ بنایا گیا تو پھر ہماری کوئی عبادت بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہو گی۔

لہذا روزے سے پہلے نیت بول کر کرنے کی کوئی وقعت نہیں۔ صرف دل ہی میں پختہ ارادہ کے ساتھ روزے کی نیت کر لینا ہی قابل قبول ہے۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ والله اعلم وعلمه اتم واكمل

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الصیام-صفحہ271

محدث فتویٰ

تبصرے