سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) گداگروں کو صدقہ و خیرات دینا کیسا ہے؟

  • 21396
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3306

سوال

(56) گداگروں کو صدقہ و خیرات دینا کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گداگروں یعنی فقیروں کے بارے میں جو بھیک مانگتے ہیں بتائیں کہ کن کو صدقہ دینا جائز ہے اور کن کو دینا ناجائز ہے مکمل وضاحت کریں؟ (عرفان افضل۔ بھلوال ضلع سرگودھا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ وحدہ لا شریک لہ نے صدقات و خیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

﴿وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَلِأَنفُسِكُم وَما تُنفِقونَ إِلَّا ابتِغاءَ وَجهِ اللَّهِ وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ يُوَفَّ إِلَيكُم وَأَنتُم لا تُظلَمونَ ﴿٢٧٢ لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ يَحسَبُهُمُ الجاهِلُ أَغنِياءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعرِفُهُم بِسيمـٰهُم لا يَسـَٔلونَ النّاسَ إِلحافًا وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ ﴿٢٧٣... سورةالبقرة

"اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا فائدہ خود پاؤ گے۔ تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہیے اور جو بھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ صدقات کے مستحق صرف وہ فقراء ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد) میں روک دیے گئے۔ جو زمین میں (کاروبار وغیرہ) کے لیے چل پھر نہیں سکتے، نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں، آپ ان کی علامت سے انہیں پہچان لیں گے۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے بےشک اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے۔"

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے صدقات و خیرات اور اموال کے مستحق وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں روکے گئے ہیں اور اتنے فقراء و محتاج ہیں کہ ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر دست سوال دراز نہیں کرتے کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ان کی خودداری اور عزت نفس کے خلاف ہے اس آیت کریمہ میں فقیر و غریب کے وصف جو ذکر کیے گئے ہیں وہ انتہائی قابل توجہ ہیں۔

(1) التعفف (2) الحاف

تعفف کا مطلب سوال سے بچنا یعنی فقر و غربت کے باوجود لوگوں سے سوال کرنے سے گریز کریں گے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ میں بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا گیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

" لأن يأخذ أحدكم حبله فيأتي بحزمة الحطب على ظهره فيبيعها، فيكف الله بها وجهه، خيرٌ له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه "

(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1836) واللفظ لہ۔ صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ (1471) مسند احمد 1/164'167)

"تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے فروخت کر کے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔"

یہی حدیث ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے:

(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ (1470 وغیرہ) مسلم، المؤطا للمالک، نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسئلۃ (2583) مسند احمد 2/257'300'395'418'496 وغیرہ میں بھی موجود ہے۔

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وَمَنْ يَتَقَبَّلْ لِي بِوَاحِدَةٍ أَتَقَبَّلْ لَهُ الْجَنَّةَ " ، قَالَ : قَالَ ثَوْبَانُ : أَنَا ، قَالَ : " لا تَسْأَلِ النَّاسَ شَيْئًا " . قَالَ : فَإِنْ كَانَ سَوْطُهُ يَقَعُ ، فَمَا يَقُولُ لأَحَدٍ نَاوِلْنِيهِ ، حَتَّى يَنْزِلَ فَيَأْخُذَهُ"

(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1837) واللفظ لہ، ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1643) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب فضل من لا یسال الناس شیئا (2589) مستدرک حاکم /1412، الترغیب والترھیب 1/581)

"جو شخص میری ایک بات قبول کر لے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں۔ میں نے کہا میں قبول کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا بھی سوال نہ کر، ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ سوار ہوتے اور ان کو کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑا دو بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔"

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من سأل وله ما يغنيه جاءت مسألته يوم القيامة خدوشاً أو خموشاً أو كدوحاً في وجهه" قيل : يا رسول الله وما يغنيه ؟ قال : خمسون درهما، أو قيمتها من الذهب "

(صحیح ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب من یسال عن ظھر غنی (1502) سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (499) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب حد الغنی (2591) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی من الصدقۃ وحد الغنی (1626) ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء من تحل لہ الزکاۃ (650'651)

"جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے کفایت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ سوال اس کے چہرے پر چھلا ہوا نشان بن کر آئے گا۔ سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کو کتنا مال کفایت کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچاس درھم یا اتنی قیمت کا سونا۔"

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا معیوب ہے کوئی خود دار انسان اسے پسند نہیں کرتا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ اسے کفایت کرتا ہو پھر بھی وہ بھیک مانگے تو اس کا بھیک مانگنا قیامت کے دن اس کے منہ پر زخم کا نشان ہو گا اور جو آدمی مسلسل بھیک مانگتا رہتا ہے قیامت والے دن اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم "

(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب من سال الناس تکثرا (1484) صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب کراھۃ المسئلہ للناس 103'104/1040) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسئلۃ (2584)

"آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت والے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو گا۔"

لہذا لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنا چاہیے جو آدمی لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا فرما دیتا ہے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا۔ انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا، یہاں تک کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ختم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ"

"جو کچھ میرے پاس مال ہوتا ہے میں اسے یتیم سے روک کر نہیں رکھتا جو شخص سوال سے بچاؤ طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے اور جو غنا طلب کرتا ہے اللہ اسے غنا دے دیتا ہے اور جو صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ اسے صبر کی توفیق دے دیتا ہے۔ کسی شخص کو صبر سے بڑھ کر وسیع اور خیر والی چیز نہیں دی گئی۔"

(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ 1469، صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل التعفف والصبر (124/1053) ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الصبر (2024) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلہ (2587) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الاستعفاف (1644)

لہذا ہر مسلم کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے اور بھیک مانگنے سے بچا کر رکھے اور وہ مسلم کامیاب ہے جو اپنے رزق پر قناعت کرے اور کسی سے سوال نہ کرے۔ جیسا کہ عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ الله بما آتاه "

(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فی الکفاف والقناعۃ (125/154، سنن ابن ماجہ (4138) ترمذی (2348) شرح السنۃ 14/240، مسند احمد 2/168'173، بیہقی 4/196، حلیۃ الاولیاء 6/129)

"کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا اور حسب ضرورت روزی دیا گیا اور جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا اس پر اسے قناعت کی توفیق بخشی۔"

لہذا بہترین مسلمان وہ بھی ہے جو حسب ضرورت روزی دیا گیا تو اس نے اس پر ہی قناعت کی اور لوگوں سے بھیک نہیں مانگی، اللہ تعالیٰ ہمیں بھیک مانگنے سے محفوظ فرمائے اور جتنی روزی وہ عطا کرے اس پر قناعت کی توفیق بھی عطا کرے۔

اور اگر ماتحت الاسباب سوال کرنے سے کوئی چارہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے سوال کر لیا جائے کیونکہ نیک لوگ جو صدقہ و خیرات سے کام لیتے ہیں وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے فقراء و مساکین کا تعاون کرتے ہیں اور سائل کو محروم نہیں کرتے۔ عام دنیا دار لوگ اگر ایک آدھ بار تعاون کر بھی دیں تو وہ لوگ انسان کی عزت نفس اور خودداری کو مجروح بھی کر دیتے ہیں جب کہ خوف خدا رکھنے والے لوگ انسان کی محتاجی اور فقر سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے حتی کہ کسی موقع پر کئے ہوئے اپنے تعاون کو جتلانے تک نہیں۔ اس سے انسان کی حرمت و عزت بھی محفوظ رہتی ہے جس طرح انصار صحابہ (رضی اللہ عنھم) نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ (واللہ اعلم)

الحاف:

سورۃ البقرہ کی اس آیت کریمہ میں مسکین کی دوسری صفت "الحاف" بیان ہوئی ہے یعنی وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے الحاف کے معنی کیے ہیں، بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت "عفت" بیان کی گئی ہے۔ (فتح القدیر) اور بعض نے کہا ہے کہ وہ سوال میں الحاح و زاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے اس لیے کہ الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے (تفسیر احسن البیان ص 154)

" لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ. قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟. قَالَ: الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ، وَلَا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا "

(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب المسکین الذی لا یجد غنی ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ (11/1039) واللفظ لہ صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب قول اللہ عزوجل (لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا) (1476)

"مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو لقمے یا ایک ایک دو دو کھجور کے لئے لوگوں کے در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مسکین وہ ہے جو حسبِ ضرورت مال نہیں پاتا اور اس کا ادراک نہیں کیا جاتا کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ ہی وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے۔"

صحیح مسلم میں مذکورہ باب کے تحت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے اس طرح بھی روایت مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" ليس المسكينُ الّذي تردُّه التّمرةُ، والتّمرتانِ، ولا اللُّقمةُ، ولا اللُّقمتانِ، إنّما المسكينُ الذي يَتَعفّفُ، واقرؤُوا إنْ شِئتُم (لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا)."

"مسکین وہ نہیں جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک دو دو لقمے کے لیے در در پھرتا ہے مسکین تو وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے اگر تم چاہو تو یہ آیت کریمہ پڑھو (کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے)"۔

نیز دیکھیں صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب  لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا (4539)

الحاف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں۔

معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" لا تلحفوا في المسألة , فوالله لا يسألني أحد منكم شيئا , فتخرج له مسألته مني شيئا وأنا له كاره , فيبارك له فيما أعطيته ""

(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النھی عن المسئلۃ (99/1038) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب الالھاف فی المسئلۃ (2592) مسند احمد 4/98، بیہقی 4/196، مستدرک حالم 2/62، طبرانی کبیر 19/348، حلیۃ الاولیاء 4/81)

"گڑگڑا کر اور چمٹ کر سوال نہ کرو، اللہ کی قسم! تم میں سے جو کوئی مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے اور اس کا سوال مجھ سے کوئی چیز نکلوا لیتا ہے اور میں اسے ناپسند کر رہا ہوتا ہوں تو جو میں اس کو دیتا ہوں اللہ اس میں برکت نہ دے گا۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ الحاف یعنی کسی کے سامنے الحاح و زاری کر کے اور چمٹ کر سوال کرنا منع ہے جس شخص کے پاس چالیس درہم ہوں پھر وہ لوگوں سے گریہ و زاری کر کے سوال کرے تو وہ ملحف ہے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

"سرحتني أمي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتيته وقعدت فاستقبلني وقال: من استغنى أغناه الله عز وجل ومن استعفَّ أعفَّه الله عزَّ وجلَّ، ومن استكفى كفاه الله عزَّ وجلَّ، ومن سأل وله قيمة أوقية، فقد ألحف. فقلت: ناقتي الياقوتة خير من أوقية فرجعت ولم أسأله"

(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب من الملحف (2594) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی من الصدقۃ و ھد الغنی (1628) صحیح ابن خزیمہ (2447) صحیح ابن حبان (846 موارد) مسند احمد 3/7، بیہقی 7/24)

"میری ماں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور فرمایا "جو شخص لوگوں سے بے پرواہی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو تھوڑے پر کفایت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کفایت دے گا اور جو شخص سوال کرے گا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) کے برابر مال ہو گا تو اس نے الحاف کیا۔ میں نے دل میں کہا میری یاقوتہ اونٹنی ایک اوقیہ سے بہتر ہے میں واپس پلٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔"

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" من سال وله اربعون درهماً، فهو الملحف "

(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب من الملحف (2093) بیہقی 7/24)

"جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس چالیس درھم ہوں تو وہ ملحف ہے یعنی لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے والا ہے۔"

بنو اسد میں سے ایک آدمی نے کہا میں اور میرے گھر والے بقیع الغرقد (مدینہ کے قبرستان کا نام) میں اترے تو میری اہلیہ نے مجھے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کھانے کے لیے کسی چیز کا سوال کر۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو میں نے پایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہہ رہے تھے میرے پاس کچھ نہیں ہے جو تجھے دوں۔ وہ ناراض ہو کر پیٹھ پھیر کو چلا اور کہنے لگا قسم ہے مجھے عمر دینے والے کی! تم اسی کو دیتے ہو جس کو چاہتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شخص مجھ پر غصے ہوتا ہے اس بات پر کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

" من سال منكم وله اوقية او عذلها فقال سال إلحافا " جس آدمی نے تم میں سے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (40 درھم) یا اس کے برابر مال ہوا تو اس نے چمٹ کر (ناحق) سوال کیا۔ اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا: میرے پاس تو ایک اونٹنی چالیس درھم سے بہتر ہے میں واپس پلٹ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جَو اور خشک انگور آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی اس میں سے ایک حصہ دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔

"(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب اذا لم یکن عندہ دراھم وکان لہ عدلھا (2595) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی الصدقۃ و حد الغنی (1627) مسند احمد 4/36، 5/430 بیہقی 7/24، المؤطا للمالک، کتاب الصدقۃ، باب ما جاء فی التعفف من المسئلہ)

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ مسکین اور فقیر وہ ہے جس کے پاس حسب ضرورت اخراجات نہیں ہیں اور وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال بھی نہیں کرتا اور ناواقف و نادان اس کے چہرے کی چمک دیکھ کر اسے مالدار تصور کر لیتا ہے اور عام طور پر معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ آدمی صدقہ و خیرات کے لائق ہے اور جس شخص کے پاس 40 درھم یا اس کی مقدار مالیت ہو تو وہ اس کی ضرورت کو کفایت کر جاتا ہے اور وہ ملحف یعنی (چمٹ کر سوال کرنے والا) نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال پر قناعت کر لیتا ہے۔

عصر حاضر میں لاری اڈوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں گھومنے والے بھکاری اور گداگر پیشہ ور لوگ ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو محنت مزدوری کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بدن میں اتنی سکت اور ہمت تکھی ہے کہ اگر وہ اسے کام میں لائیں تو سوال کرنے سے بچ سکتے ہیں لیکن یہ لوگ حصول مال کے لیے محنت و مزدوری سے جی چرا کے آسان راستہ اختیار کرتے ہیں اور حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر طریقے سے مال اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں اور بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کا پورا کنبہ ہی در در کا بھکاری اور سوالی بنا ہوا ہے۔

نوجوان عورتیں اپنے بچوں کو اٹھائے لائے لاری اڈوں کی خاک چھان رہی ہیں۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ لوگ صدقات و عطیات کے مستحق معلوم نہیں ہوتے۔ مال و زر والے افراد اور احسان و نیکی کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ صاحب حاجات اور صدقات و خیرات کے مستحق افراد کو پہچان کر ان پر اپنے اموال صرف کریں اور یقینا حاجت مند مسلم افراد اللہ کے دین کے حامل ہوں گے اور نماز، روزہ وغیرہ جیسی عبادات سر انجام دیتے ہوں گے کیونکہ وہ تو ذلت و خواری سے بچنے کے لیے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی خودداری اور عزت نفس انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے جب کہ پیشہ ور بھکاریوں میں تو بہت سارے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ مسکر اور نشہ آور اشیاء خرید کر استعمال کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں سے تعاون تو گناہ پر تعاون ہے جو کہ شرعا حرام ہے۔

امام نووی نے شرح صحیح مسلم 7/113 میں فرمایا ہے کہ:

"واختلف أصحابنا في مسألة القادر على الكسب على وجهين: أصحهما أنها حرام لظاهر الأحاديث، والثاني حلال مع الكراهة بثلاثة شروط أن لا يذل نفسه ولا يلح في السؤال ولا يؤذي المسؤول فإن فقد واحد من هذه الشروط فهى حرام بالاتفاق"

"جو شخص کمائی پر قادر ہے اس کے سوال کرنے کے متعلق دو وجھوں سے ہمارے اصحاب نے اختلاف کیا ہے ان سے صحیح ترین بات یہ ہے کہ اس کے لیے سوال کرنا حرام ہے ظاہر احادیث کی وجہ سے، دوسری بات یہ ہے کہ کراہت کے باوجود تین شرطوں کے ساتھ حلال ہے: (1) وہ اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے۔ (2) اور نہ ہی سوال کرنے میں گریہ و زاری سے کام لے (3) اور نہ ہی جس سے سوال کرتا ہے اسے تنگ کرے۔ اگر تین شرطوں میں سے ایک بھی مفقود ہو گئی تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے۔

عصر حاضر کے بھکاری تو در در کی ذلت و رسوائی بھی اٹھاتے ہیں اور مانگتے وقت انتہاء درجے کی گریہ و زاری کرتے ہیں اور لوگوں کو تنگ بھی کرتے ہیں، انہیں اگر کہا جائے بھائی معاف کرو تو پھر بھی جان نہیں چھوڑتے لہذا ان کا سوال کرنا تو کسی صورت بھی صحیح نہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ جو صحیح شرعی لحاظ سے مسکین ہو اس کی معاونت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو اور پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی ہو۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الزکوٰۃ-صفحہ257

محدث فتویٰ

تبصرے