ہمارے ہاں کسی مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر کے سرہانے سورۃ البقرہ کا پہلا رکوع اور قبر کی پائنی کی جانب سورۃ البقرہ کا آخری رکوع پڑھنا رائج ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں پڑھنا جائز ہے یا نہیں راہنمائی فرمائیں۔ (محمد امتیاز خان لغاری۔ محمد طارق سہیل لغاری۔ محلہ بلوع نگر مظفر گڑھ)
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے سرہانے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات اور پاؤں کی جانب آخری آیات جو تلاوت کی جاتی ہیں، اس کی بنیاد ایک ضعیف روایت پر ہے جو صاحب مشکوٰۃ نے کتاب الجنائز باب دفن المیت رقم الحدیث (1717) میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
(رواہ البیہقی فی شعب الایمان وقال: والصحیح انہ موقوف علیہ)
جب تم میں سے کوئی آدمی وفات پا جائے تو اس کو روک کر نہ رکھو اسے اس کی قبر کی طرف جلدی لے چلو اور اس کے سر کی جانب سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات اور پاؤں کی جانب سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔ اسے بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔
صاحب مشکوٰۃ نے امام بیہقی کی شعب الایمان سے روایت نقل کر کے بعد میں امام بیہقی کا اس پر جو حکم نقل کیا ہے، یہ ہمیں شعب الایمان میں نہیں ملا۔ کیونکہ یہ روایت شعب الایمان میں باب فی الصلاۃ علی من مات من اھل القبلہ فصل فی زیارۃ القبور رقم (9294) 7/16 میں موجود ہے۔ اس پر امام بیہقی نے لکھا ہے کہ " لم يكتب الا بهذا الاسناد فيما أعلم وقد روينا القراة المذكورة فيه عن ابن عمر موقوفا عليه " میرے علم کے مطابق یہ روایت اسی سند کے ساتھ لکھی گئی ہے اور ہمیں اس میں مذکورۃ قراۃ عبداللہ بن عمر سے موقوف روایت کی گئی ہے۔ اور نہ ہی السنن الکبری بیہقی باب ماورد فی قراۃ القرآن عندالقبر 4/56 میں موجود ہے۔ یاد رہے کہ یہ مرفوع روایت شعب الایمان کے علاوہ طبرانی کبیر 2/208/2 اور امام خلال کی "کتاب القراۃ عند القبور" (ق 25/2) میں بھی مروی ہے۔
جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے مشکوٰۃ کی تحقیق ثانی 2/223 میں ذکر کیا ہے۔ اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ بن الضحاک البابلتی ہے۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " واه " کمزور راوی ہے۔ ازدی کہتے ہیں: " الضعف على حديثه بين " اس کی روایت میں کمزوری واضح ہے ابو حاتم فرماتے ہیں " لا يعتدبه " اسے شمار نہ کیا جائے۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں یہ ثقہ راویوں سے معضل روایات بیان کرتا ہے اور ان میں وہم کا شکار ہو جاتا ہے اور جس روایت میں یہ متفرد ہو، اس میں ساقط الاحتجاج ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں اس کی روایت میں ضعف نمایاں ہے۔ (تہذیب 6/1153 المغنی فی الضعفاء 2/521، میزان الاعتدال 4/390) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ضعیف ہے۔ (تقریب مع تحریر 4/91) اسی طرح اس کا استاذ ایوب بن نعیک الحلبی مولی آل سعد بن ابی وقاص بھی انتہائی ضعیف ہے۔ اسے ابو حاتم وغیرہ نے ضعیف اور ازدی نے متروک قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال 1/294) امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ المغنی فی الضعفاء 1/151 میں لکھتے ہیں " تركوه " محدثین نے اسے چھوڑ دیا ہے۔
ابن ابی حاتم رازی فرماتے ہیں۔
" سمعت ابارزعة يقول: لا احدث لمن ايوب بن نهيك ولم يقرأ علينا حديثه وقال: هو منكر الحديث " (الجرح والتعدیل 2/259)میں نے ابو زرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں ایوب بن نہیک سے روایت بیان نہیں کرتا اور انہوں نے اس کی روایت ہم پر نہیں پڑھی اور فرمایا: وہ منکر الحدیث ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ اب رہا اس کا موقوف ہونا تو یہ موقوفا بھی صحیح ثابت نہیں۔ امام بیہقی سے صاحب مشکوٰۃ نے جو اس کا موقوفا صحیح ہونا نقل کیا ہے اولا اس کا ثبوت درکار ہے۔ اور ثانیا یہ روایت السنن الکبریٰ للبیہقی 4/56 میں عبدالرحمٰن بن العلاء بن اللجلاج عن ابیہ کے طریق سے مروی ہے کہ العلاء بن اللجلاج نے اپنے بیٹوں سے کہا جب تم مجھے میری قبر میں داخل کرنے لگو تو مجھے لحد میں رکھو اور کہو: " باسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم " اور میرے اوپر مٹی ڈالو۔ اور میرے سر کے نزدیک سورۃ البقرۃ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھو میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اسے مستحب سمجھتے تھے۔ علامہ زیلعی نے نصب الرایہ 2/302 میں اور علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد 3/44 قدیم رقم (4243) میں طبرانی کبیر 19/220 کے حوالے سے یہ روایت درج کی ہے اور اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:
میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنی۔ اس پر علامہ زیلعی نے سکوت اختیار کیا ہے اور علامہ ہیثمی نے کہا ہے۔ " رجاله موثقون " اس کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے۔
لیکن یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ کیونکہ اس میں عبدالرحمٰن بالعلاء بن اللجلاج شامی مجہول ہے اس سے مبشر بن اسماعیل الحلبی کے سوا کسی نے روایت نہیں کی (میزان الاعتدال 2/579) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب (3975) میں اسے مقبول لکھا ہے اور دکتور بشار عواد اور شیخ شعیب ارناؤط نے تعریر تقریب التہذیب 2/342 میں کہا ہے کہ یہ مجہول ہے۔ اس سے روایت کرنے میں مبشر بن اسماعیل الحلبی متفرد ہے۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ مشکوٰۃ 2/223 تحقیق ثانی میں رقمطراز ہیں۔
" والموقوف لا يصح اسناده فيه عبدالرحمن بن العلاء بن اللجلاج وهو مجهول "موقوف کی سند صحیح نہیں اس میں عبدالرحمٰن بن العلاء بن اللجلاج مجہول ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ جس روایت کی بنیاد پر یہ رواج ہے وہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی کوئی صحیح سند موجود ہے اور صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین و قصرھا 212/780)
اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ یقینا شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے نہ کہ قبرستان میں یہ حدیث بالکل اسی طرح ہے
(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین)
اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور انہیں قبریں نہ بناؤ۔ معلوم ہوا جیسے قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی اسی طرح قرآن بھی نہیں پڑھا جائے گا۔ لہذا مذکورہ رواج پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب