سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(48) نماز جنازہ پڑھاتے وقت متعدد دعائیں مانگنا

  • 21388
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2309

سوال

(48) نماز جنازہ پڑھاتے وقت متعدد دعائیں مانگنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز جنازہ پڑھاتے وقت متعدد دعائیں مانگی جا سکتی ہیں یا کہ صرف ایک ہی دعا مانگنی چاہیے؟ صحیح جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں (ایک سائل۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی مسلم موحد فوت ہو جائے تو اس کا نماز جنازہ ادا کرنا دوسرے مسلمانوں پر حق ہے اور نماز جنازہ میں اخلاص سے دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(اذا صليتم على الميت فأخلصوا له الدعاء)

جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھنے لگو تو اس کے لیے اخلاص سے دعا کرو (سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب الدعاء للمیت (3199) سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الدعاء فی الصلاۃ علی الجنازۃ (1497) بیہقی کتاب الجنائز باب الدعاء فی صلاۃ الجنازۃ 4/40 صحیح ابن حبان (754'755 موارد) اسی طرح ابو امامۃ بن سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

(السنة فى الصلاة على الجنازة أن تكبر ثم تقرا بام القرآن ثم تصلى على النبى صلى الله عليه وسلم ثم تخلص الدعاء للميت ولا تقرأء الا فى التكبيرة الاولى ثم تسلم فى نفسه عن يمينه)

(المنتقی لابن الجارود (540) عبدالرزاق (6328) فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لاسماعیل القاضی (94) المستدرک للحاکم 1/360 بیہقی 4/39-40)

نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تم تکبیر کہو پھر سورۃ فاتحہ پڑھو (پھر دوسری تکبیر کہو) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو (پھر تیسری تکبیر کہو) پھر میت کے لیے اخلاص سے دعا کرو اور پہلی تکبیر کے علاوہ کسی میں قراءت نہ کرو (پھر چوتھی تکبیر کہو) پھر اپنی دائیں جانب آہستہ سلام پھیر دو۔ ان ہر دو صحیح احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز جنازہ میں میت کے لیے اخلاص سے دعا کرنے کا حکم ہے اور "الدعاء" دعا یدعو سے مصدر ہے اور مصدر کا اطلاق قلیل و کثیر پر ہوتا ہے لہذا ایک سے زائد دعائیں بھی جنازہ میں کی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے عام بھائی نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھتے ہیں

(اللهم اغفر لحينا و ميتنا  و شاهدنا و غائبنا  و صغيرنا و كبيرنا  و ذكرنا و أُنثانا اللهم من أحييته منا فأحييه على الإسلام و من توفيته منا فتوفه على الإيمان  اللهم لاتحرمنا أجره ولاتضلنا بعد)

(سنن ابن ماجہ (1498) مسند احمد 14/406 (8809) صحیح ابن حبان (857 موارد)

اے اللہ ہمارے زندہ اور مردہ، حاضر اور غائب، چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت کو بخش دے اے اللہ ہم میں سے جسے بھی تو زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے جسے بھی فوت کرے اسے ایمان پر فوت کر۔ اے اللہ ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کر اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کر۔

اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ

(كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا صلى على الجنازه قال)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ لہذا ہر جنازے میں یہ دعا پڑھنی چاہیے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ دعا عام ہے میت کے لیے خاص نہیں ہے اس میں زندہ مردہ، مرد عورت، چھوٹے بڑے، حاضر غائب سب کے لیے دعا ہے اور ہمیں خاص میت کے لیے بھی دعا کا حکم ہے تو لامحالہ اس دعا کے ساتھ خاص میت کی بخشش والی دعا بھی مانگنی پڑے گی جیسا کہ اللهم اغفر له وارحمه وغیرہ ہے تو ثابت ہوا کہ ایک سے زائد دعائیں جنازے میں مانگی جا سکتی ہیں۔

اسی طرح عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على جنازة فحفظت من دعائه وهو يقول ((اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه ...))

(صحیح مسلم 85/963، المنتقی لابن الجارود (538) جامع الترمذی (1025) سنن ابن ماجہ (1500) مسند احمد 39/397'427'428، سنن النسائی (1982'1983'62)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی۔ میں نے آپ کی دعا میں سے یاد کر لیا۔ آپ کہہ رہے تھے۔ اے اللہ اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اسے عافیت دے اور اسے معاف کر دے۔ میں نے تمنا کی کاش میں وہ میت ہوتا۔

اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ جنازہ پر متعدد دعائیں مانگتے تھے کیونکہ صحابی فرماتے ہیں (فحفظت من دعائه) میں نے آپ کی دعا میں سے یاد کیا۔ یہاں پر " من " لفظ ہے جو بعض اور کچھ پر دلالت کرتا ہے یعنی آپ نے دعا تو بہت کی لیکن اس میں سے کچھ حصہ میں نے یاد کر لیا۔ اور جو دعا یاد کی پھر اسے آگے بیان کر دیا۔

شداد بن الھاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ پر ایمان لایا اور آپ کے تابع ہو گیا پھر کہنے لگا میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے بعض صحابہ کو تاکید فرمائی۔ جب ایک جنگ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ غنیمت حاصل ہوئی۔ آپ نے اسے تقسیم کیا اور اس کا بھی حصہ نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا۔ وہ ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا۔ جب آیا تو انہوں نے اس کا حصہ اسے دیا۔ وہ پوچھنے لگا یہ کیا ہے؟ اس کے ساتھی نے کہا تمہارا حصہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے نکالا ہے۔ اس اعرابی نے اپنا حصہ لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ کہنے لگا یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے (مال غنیمت سے) تمہارا حصہ نکالا ہے۔ کہنے لگا میں اس کے لیے آپ کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس مقصد کے لیے آپ کے پیچھے لگا ہوں کہ مجھے (پھر اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) یہاں تیر لگے تو میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا اگر تم اللہ سے سچ کہو گے تو اللہ بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا۔ اس کے بعد تھوڑی دیر گزری پھر وہ دشمن سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو اسے اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ اس کو وہیں تیر لگا تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا یہ وہی ہے؟ صحابہ نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اس نے اللہ تعالیٰ سے سچ کہا تو اللہ نے اس سے سچ کا سلوک کیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خود اپنے جبے میں کفن دیا اور اسے اپنے سامنے رکھ کر اس پر جنازہ پڑھا

(فكان مما ظهر من صلاته اللهم هذا عبدك خرج مهاجرا فى سبيلك فقتل شهيدا انا شهيد على ذلك)

تو آپ کی دعا سے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند الفاظ یہ تھے اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے، تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، پس شہید ہو کر قتل ہوا، میں اس بات پر گواہ ہوں۔

(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الشھداء (1952) المستدرک للحاکم 3/595'596، بیہقی 4/15'16، السنن الکبری للنسائی 1/634 (2080) شرح معانی الآثار للطحاوی (2818) 2/35 کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الشھداء)

اس حدیث میں بھی (فكان مما ظهر من صلاته) قابل توجہ الفاظ ہیں۔ آپ کی دعا میں سے جو الفاظ ظاہر ہوئے وہ صحابی نے بیان کر دیے۔ معلوم ہوا اس کے علاوہ بھی آپ نے دعا کی جو ظاہر نہیں ہوئی۔ لہذا نماز جنازہ میں متعدد دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ یزید بن رکانہ بن المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

(كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قام للجنازة ليصلى عليها قال: ((اللهم عبدك وابن عبدك وابن أمتك احتاج إلى رحمتك ،وأنت غني عن عذابه،إن كان مُحسناً فزده في حسناته، وإن كان مُسيئاً فتجاوز عنه)) ثم يدعو ماشاءالله ان يدعو)

(المعجم الکبیر للطبرانی 22/249 (647) الاصابہ 6/515، مجمع الزوائد 3/140 (4167)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا فرماتے۔ اے اللہ یہ تیرا بندہ ہے اور تیری بندی کا بیٹا ہے۔ تیری رحمت کا محتاج ہو گیا ہے اور تو اس کو عذاب دینے سے بے پرواہ ہے۔ اگر یہ احسان کرنے والا تھا تو اس کی حسنات میں اضافہ فرما اور اگر گناہ گار تھا تو اس سے درگزر فرما۔ پھر اس کے بعد جو اللہ چاہتا دعا کرتے۔

اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ میں کئی دعائیں مانگتے تھے۔ اس حدیث کے آخری الفاظ ((پھر اس کے بعد جو اللہ چاہتا دعا کرتے )) اس مسئلہ میں صریح نص ہیں۔ مذکورہ بالا دلائل صحیحہ سے بات بالکل عیاں ہو گئی کہ مسلمان موحد کا جنازہ پڑھتے وقت ایک سے زیادہ دعائیں مانگی جا سکتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عمل سے اس کا ثبوت موجود ہے۔ اور شرعا بالکل صحیح اور درست ہے۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجنائز-صفحہ227

محدث فتویٰ

تبصرے