سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32) صلاۃ اشراق، صلاۃ الضحی اور اوابین

  • 21372
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1612

سوال

(32) صلاۃ اشراق، صلاۃ الضحی اور اوابین
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صلاۃ اشراق، صلوۃ الضحی اوابین کیا یہ تینوں نمازیں الگ الگ ہیں یا ایک ہی نماز کے تین نام ہیں؟ (ابراہیم بنگلوری، دمام سعودی عرب)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صلوۃ الضحی اور صلوۃ الاوابین ایک ہی نماز کے دو نام ہیں:

قاسم شیبانی بیان کرتے ہیں کہ:

" أن زيد بن أرقم رأى قوما يصلون من الضحى فقال أما لقد علموا أن الصلاة في غير هذه الساعة أفضل إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال صلاة الأوابين حين ترمض الفصال "

(صحیح مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین، باب صلوۃ الاوابین حین ترمض الفصال 147/748، المسند المستخرج 2/343، بیہقی 3/49)

"زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو صلوۃ الضحی پڑھتے دیکھا تو فرمایا: کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ نماز اس وقت کے علاوہ وقت میں افضل ہے بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلوۃ الاوابین اس وقت ہے جب شدت گرمی کی وجہ سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلتے ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ:

(خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على أهل قباء وهم يصلون الضحى، فقال: «صلاة الأوابين، إذا رمضت الفصال من الضحى».)

(مسند احمد 4/366 واللفظ لہ صحیح مسلم 144/748 المسند المستخرج 2/343 (1696) بیہقی 3/490 المعجم الکبیر للطبرانی 5/234 صحیح ابن خزیمہ (1227) شرح السنۃ 4/1145 ابن ابی شیبہ 2/406 ارواء الغلیل 2/222 صحیح ابو عوانہ 2/270'271)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اھل قباء پر نکلے۔ وہ صلوۃ الضحیٰ پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلوۃ الاوابین اس وقت ہے جب دھوپ کی شدت کی وجہ سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلتے۔"

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ صلوۃ الضحی اول وقت کی بجائے اچھی طرح دھوپ میں پڑھنی افضل ہے صفی الرحمان مبارکپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں: یہ وقت نصف النہار سے کچھ پہلے ہے۔ (منۃ المنعم: 1/471)

اور اسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ الاوابین قرار دیا ہے۔ اوابین اواب کی جمع ہے اور اواب وہ شخص ہے جو اخلاص اور عمل صالح کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی کے لئے اللہ کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا ہوتا ہے نصف النہار سے کچھ دیر پہلے عام طور پر لوگوں کے لئے استراحت و آرام کا وقت ہوتا ہے اور اواب شخص راحت و سکون کو پس پشت ڈال کر اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے اس لئے یہ وقت صلوۃ الضحی کا افضل قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ صلوۃ الاوابین صلوۃ الضحی ہی کا دوسرا نام ہے۔

ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا يحافظ على صلاة الضحى إلا أواب، وهي صلاة الأوابين)

(صحیح ابن خزیمہ (1224) مستدرک حاکم 1/314 سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (1994'703) مجمع الزوائد 2/239 طبرانی اوسط (3877)

"صلوۃ الضحی کی اواب ہی حفاظت کرتا ہے اور فرمایا یہی صلوۃ الاوابین ہے۔ یہ حدیث بھی اس بات پر نص ہے کہ صلوۃ الضحی کا دوسرا نام صلوۃ الاوابین ہے۔"

اشراق کا معنی سورج کا نکلنا ہے یعنی سورج نکلنے کے بعد جو نماز پڑھی جاتی ہے، اسے اشراق کی نماز کہا جاتا ہے۔ کئی ایک علماء نے صلوۃ الاشراق کو صلوۃ الضحی ہی قرار دیا ہے البتہ بعض نے فرق بھی کیا ہے۔ مولانا عبیداللہ رحمانی محدث مبارکپوری نے ذکر کیا ہے کہ صلوۃ الاشراق ضحوہ صغری میں اور صلوۃ الضحی ضحوہ کبری میں ادا کی جاتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن احادیث میں صلوۃ الاشراق کی ترغیب دی ہے، ان میں ہے کہ نماز فجر کی نماز کے بعد بیٹھا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے۔ پھر دو رکعت پڑھے۔

ملا علی قاری نے معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کی حدیث جو ابوداؤد میں مروی ہے اور مشکوٰۃ باب صلوۃ الضحی الفصل الثانی میں ابوداؤد کے حوالے سے ہے کی شرح میں کہا ہے یہی نماز صلوۃ الاشراق ہے اور یہ صلوۃ الضحی کا اول ہے۔

علامہ مبارکپوری فرماتے ہیں اس بات پر وہ احادیث بھی دلالت کرتی ہیں جن میں اول دن کے اندر چار رکعات پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ یہ صلوۃ الاشراق کے زیادہ موافق ہے۔

ملا علی قاری نے کہا تحقیق یہ ہے کہ صلوۃ الضحی کا اول وقت وہ ہے جب کراہت کا وقت خارج ہو جائے اور اس کا آخری وقت زوال سے پہلے کا ہے لہذا جو اول وقت میں نماز ادا ہوئی، اسے صلوۃ الاشراق اور جو اس کے بعد کے وقت تک ادا ہوئی اسے صلاۃ الضحی کا نام دیا گیا۔

حافظ عراقی فرماتے ہیں ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث تخریج کی ہے کہ جب سورج اپنے مطلع سے نکل کر ایک دو نیزوں کی مقدار تک ہو جاتا ہے جیسے سورج ڈوبنے سے پہلے نماز عصر کی مقدار تک ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے پھر مہلت رکھتے ہیں یہاں تک کہ جب دھوپ چڑھ جاتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات نماز پڑھتے یہ لفظ نسائی کے ہیں۔ (نسائی کبریٰ 1/178)

امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ الضحی اور صلاۃ الاشراق میں فرق اس لحاظ سے ہے کہ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد نماز ادا کریں تو اسے صلاۃ الاشراق کہتے ہیں اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو کہ دھوپ کی شدت ہو جائے اور زوال سے قبل نماز پڑھیں تو یہ صلوۃ الضحی ہے۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ136

محدث فتویٰ

تبصرے