سجدے میں دعا کی قبولیت زیادہ متوقع ہے کیا اس سجدے سے مراد فرضی سجدہ ہے یا نفلی نیز کیا سجدے میں عربی زبان میں ہی دعا مانگنی چاہیے یا غیر عربی میں بھی مانگ سکتے ہیں اگر کوئی ان پڑھ بندہ مجبوری کے تحت غیر عربی میں دعا مانگے تو قرآن و حدیث کی رو سے کیسا ہے؟ (ذوالفقار احمد۔ راھوالی)
اس مسئلے کی توضیح کے لئے درج ذیل احادیث قابل توجہ ہیں۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود 215/486 ابوداؤد، کتاب الصلوۃ المغنی عن حمل الاسناد للعراقی 1/149'307 شرح السنۃ 3/151)
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہو پس (تم سجدے کی حالت میں) کثرت سے دعا کرو۔"
(صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، باب النھی عن قراۃ القرآن فی الرکوع والسجود 207/479، ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی الدعا فی الرکوع والسجود 876، نسائی، کتاب التطبیق، باب تعظیم الرب فی الرکوع 1044، و باب الامر بالاجتھاد فی الدعاء فی السجود 1119، ابن ماجہ، کتاب تعبیر الرویا الصالحۃ یراھا المسلم او تری لہ 3899 مختصرا مسند احمد 1/219 سنن الدارمی، کتاب الصلاۃ، باب النھی عن القرۃ فی الرکوع والسجود 1331'1332، المنتقی لابن الجارود 203 مسند ابی عوانہ 2/170'171، صحیح ابن خزیمہ 1/303' 204 صحیح ابن حبان 3/282'283 مسند حمیدی 489 بیہقی 872'88 شرح السنۃ 3/107)
"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا۔ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں باندھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا:
اے لوگو! نبوت کی بشارتوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے اچھے خواب کے جسے مسلمان دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے خبردار مجھے رکوع یا سجدے میں قرآن پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ بہرکیف رکوع میں تم اپنے رب کی تعظیم کرو اور سجدے میں دعا کرنے میں مبالغہ کرو یہ تمہاری دعا کی قبولیت کے زیادہ لائق ہے۔"
"علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے اور فرمایا جب تم رکوع کرو تو اللہ کی تعظیم کرو اور جب تم سجدہ کرو تو دعا کرو یہ تمہاری دعا کی قبولیت کے زیادہ لائق ہے۔"
مذکورہ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ سجدے میں دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ احادیث عام ہیں فرضی اور نفلی تمام سجدوں کو شامل ہیں اور ان میں دنیا و آخرت کی خیریت طلب کرنا اور ان کے شر سے پناہ مانگنا جائز ہے۔ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" والحديث دليل على مشروعية الدعاء حال السجود باى دعاء كان من طلب خير الدنيا والآخرة والاستعاذة من شرهما "(مرعاۃ المفاتیح 3/197)
"یہ حدیث سجدوں کی حالت میں دعا کی مشروعیت پر دلیل ہے دنیا و آخرت کی خیریت طلب کرنے اور ان کے شر سے پناہ مانگنے پر مشتمل کوئی بھی دعا ہو سکتی ہے۔"
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" الأمر بإكثار الدعاء في السجود يشمل الحث على تكثير الطلب لكل حاجة كما جاء في حديث أنس " ليسأل أحدكم ربه حاجته كلها حتى شسع نعله " أخرجه الترمذي ، ويشمل التكرار للسؤال الواحد " (مرعاۃ المفاریح 3/188 فتح الباری 2/300)"سجدوں میں کثرت سے دعا مانگنے کا حکم ہر قسم کی حاجت کو کثرت سے طلب کرنے کی ترغیب پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی تمام حاجات اپنے رب سے مانگے یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ بھی۔"
اس حدیث کو امام ترمذی نے نکالا ہے اور یہ حدیث ایک ہی سوال بار بار کرنے کو بھی شامل ہے۔
سید سابق سجدے کی مقدار اور اذکار کے تحت رقمطراز ہیں:
" والمستحب لا يقتصر المصلى على التسبيح بل يزيد عليه ماشاء من الدعاء " (فقه السنة 1/148)"مستحب یہ ہے کہ نمازی صرف تسبیح پر اقتصار نہ کرے، بلکہ اس پر جو دعا چاہے زیادہ کرے۔"
اس کے بعد پھر اوپر ذکر کردہ حدیث ابی ہریرۃ و ابن عباس رضی اللہ عنہم کو احمد و مسلم کے حوالہ سے ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے یہ بات اخذ کی ہے۔
قاضی شوکانی فرماتے ہیں:
" الاستكثار من الدعاء بخير الدنياء والآخرة بما ورد وبما لم يرد "(الدرر البھیۃ ص: 32)
"نماز میں دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعا کثرت سے مانگنی چاہیے، خواہ وہ دعا منقول ہو یا نہ ہو۔"
نیز دیکھیں: (الدرر البھیہ کی شرح "الدراری المضیۃ" (للشوکانی 1/91) "السموط الذھبیۃ" (ص 59 م 60، للشیخ احمد بن محمد علی الشوکانی "الروضہ الندیۃ" 1/105 مطبوعہ لاہور۔ الدراری المضیہ 1/91 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت کے حاشیے میں لکھا ہے کہ:
"اگر آپ کہیں کہ کس دلیل سے قاضی شوکانی نے نماز کے اندر ماثور و غیرماثور دعاؤں کو جائز قرار دیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ جس میں دو سجدوں میں دعا مانگنے کے متعلق کہا گیا ہے اور تشہد میں دعا کے لئے اس حدیث کو پیش کیا ہے کہ:" ثم ليتخير احدكم من الدعاء مما اعجبه اليه " پھر تم میں سے ہر کسی کو جو دعا پسند ہو اختیار کر لے آپ نے نمازی کے لئے دعا میں اختیار دے دیا ہے کہ وہ جو چاہے دعا کرے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ عبادات چونکہ توقیفی ہوتی ہیں اس لئے دعا عربی زبان میں ہی مانگی جائے۔ قرآن و سنت میں کتنی ہی ایسی دعائیں مذکورہ ہیں جو دنیا و آخرت کی بھلائیوں کو شامل ہیں ان میں سے کوئی اختیار کر لی جائے۔ اگر کوئی شخص واقعی ایسا ہے کہ وہ عربی میں دعائیں یاد نہیں کر سکتا تو اس کے لئے گنجائش ہو سکتی ہے کیونکہ معذوروں کے لئے الگ قاعدہ شرعی موجود ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب