سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) مسافر کی امامت کا حکم

  • 21361
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3297

سوال

(21) مسافر کی امامت کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسافر آدمی مقیم کی امامت کروا سکتا ہے؟ اور مسافر اگر نماز فرض پڑھے اور مقیم اٹھ کر اپنی نماز پوری کرے تو مقیم کی نماز میں کوئی خلل واقع ہو گا یا نہیں۔ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں بعض حضرات اس بات پر جھگڑا کرتے ہیں کہ مسافر کو مقیم کی اقتداء نہیں کرنی چاہیے اگر مسافر نماز پڑھائے تو اسے پوری نماز پڑھانی چاہیے۔ (ایک اللہ کا بندہ۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص کسی قوم کے ہاں مہمان بنے تو وہ ان کی اجازت کے بغیر امامت نہ کرائے اگر وہ اجازت دے دیں تو انہیں نماز پڑھا سکتا ہے اور مسافر مقیم کی امامت جب کرائے اور دو رکعت پر سلام پھیر دے تو مقیم اٹھ کر اپنی بقیہ دو رکعتیں پوری کر لے اس سے مقیم کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔

ابو عطیہ سے روایت ہے کہ مالک بن الحویرث ہماری نماز کی جگہ میں آئے ایک دن نماز کا وقت آ گیا ہم نے انہیں کہا کہ تم آگے بڑھو تو انہوں نے کہا تم میں سے کوئی شخص آگے بڑھے یہاں تک کہ میں تمہیں بیان کروں کہ میں آگے کیوں نہیں بڑھتا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:

(من زار قوماً فلا يؤمهم ، وليؤمهم رجل منهم)

"جو آدمی کسی قوم کی زیارت کے لئے جائے تو وہ ان کی امامت نہ کروائے ان میں سے کوئی آدمی ان کی امامت کرائے۔"

(ترمذی، ابواب الصلوۃ، باب ماجاء فیمن زار قوما لا یصلی بھم (386) ابن خزیمہ (1520) بیہقی 3/126 نسائی، کتاب الامامۃ، باب امامۃ الزائر (786) ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب امامۃ الزائر (596) مسند احمد 3/436' 5/53)

اس کی سند میں ابو عطیہ ہے جس کے بارے میں امام ابو حاتم، امام علی بن مدینی اور یحییٰ القطان نے کہا کہ یہ مجہول ہے لیکن امام ترمذی نے اس کی حدیث کی تحسین اور امام ابن خزیمہ نے تصحیح کی ہے۔ اس حدیث کے بعض شواھد بھی ہیں۔

نافع سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ کی ایک جانب مسجد میں نماز کے لئے اقامت کہی گئی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس مسجد کے قریب زمین تھی جس میں وہ کام کر رہے تھے اور اس مسجد کا امام ان کا غلام تھا اس غلام اور اس کے ساتھیوں کا مسکن بھی وہاں ہی تھا۔ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں سنا تو ان کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لئے تشریف لائے تو مسجد کے امام نے انہیں کہا آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

(أنت أحق أن تصلي في مسجدك مني ، فصلى المولى)

"تم اپنی مسجد میں نماز پڑھانے کا مجھ سے زیادہ حق رکھتے ہو پس غلام نے نماز پڑھائی۔"

(کتاب الام 1/158 بیہقی 3/126 کتاب الصلوۃ، باب الامام الراتب اولی من الزائر)

ان احادیث سے یہ معلوم ہوا کہ مقرر امام امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے اور دوسرے شخص کو اس کے ہوتے ہوئے نماز نہیں پڑھانی چاہیے ہاں اگر مقرر امام کسی دوسرے شخص کو اجازت دے دے۔ تو وہ نماز پڑھا سکتا ہے۔ جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ولا يحل لرجل يؤمن بالله واليوم الآخر أن يؤم قوما إلا بإذنهم)

"کسی شخص کے لئے حلال نہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو کہ وہ کسی قوم کی امامت کرائے ماسوائے ان کی اجازت کے۔"

(ابوداؤد، کتاب الطھارۃ، باب یصلی الرجل وھو حاقن (91) بیہقی 3/129)

ایک حدیث میں ہے کہ:

" وَلا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ , وَلا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلا بِإِذْنِهِ "

"کوئی آدمی دوسرے آدمی کی حکومت میں امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی عزت والی جگہ (مسند وغیرہ) میں بیٹھے مگر اس کی اجازت کے ساتھ۔"

(ترمذی، ابواب الصلوۃ، باب ماجاء من احق بالامامۃ (235) مسند احمد 5/272 المنتقی لابن الجارود (308) نسائی، کتاب الامامۃ، باب من احق بالامامۃ (779) ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب من احق الامامۃ (582'583'584) کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ (290/673) ابن ماجہ، کتاب فی اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا باب من احق بالامامۃ (980) ابو عوانہ 2/36' 36 مسند حمیدی (457) عبدالرزاق (3809'3808) مستدرک حاکم 1/243 شرح السنۃ 3/394 بیہقی 3/90'19'125)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقرر امام کسی آنے والے شخص کو امامت کی اجازت دے دے تو وہ شخص نماز پڑھا سکتا ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کا اس پر عمل ہے آگے مزید لکھتے ہیں: امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ کوئی آدمی کسی آدمی کی حکومت و سلطہ والی جگہ میں امامت نہ کرائے اور نہ اس کی عزت والی جگہ میں بیٹھے مگر اس کی اجازت سے۔ یہ اجازت امامت اور عزت والی جگہ دونوں کے متعلق ہے اور جب اسے نماز پڑھانے کی اجازت دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

(ترمذی، ابواب الصلوۃ 1/461 تحقیق احمد شاکر)

علامہ احمد شاکر فرماتے ہیں: امام احمد بن حنبل نے جو بات استنباط کی ہے یہ اس حدیث کی بعض روایات میں بطور نص واقع ہوئی ہے جیسا کہ المنتقیٰ مع نیل الاوطار 3/192 میں کہا ہے اور سعید بن منصور نے روایت کیا ہے:

" وَلا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ , وَلا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلا بِإِذْنِهِ "

"کوئی شخص دوسرے شخص کی سلطنت میں اس کی امامت نہ کرائے مگر اس کی اجازت کے ساتھ اور نہ اس کے گھر میں اس کی مسند پر بیٹھے مگر اس اجازت کے ساتھ۔"

پس اجازت ان دونوں صورتوں میں ہے یعنی صاحب بیت کی اجازت سے اس کی مسند پر بھی بیٹھ سکتا ہے اور آدمی کی حکومت اور سلطہ والی جگہ میں اس کی اجازت سے امامت کروا سکتا ہے مذکورہ توضیح سے معلوم ہوا کہ مسافر اور زائر آدمی مقیم کی اجازت سے نماز پڑھا سکتا ہے اس میں شرعی طور پر رخصت ہے اگرچہ زیادہ حق مقرر امام کا ہے۔ اور جب مسافر مقیم امام کی اجازت سے نماز پڑھائے اور وہ قصر کرنا چاہتا ہو تو مقیم کھڑے ہو کر اپنی نماز پوری کر لیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

(أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ : ( كَانَ إِذَا قَدِمَ مَكَّةَ صَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ : يَا أَهْلَ مَكَّةَ ! أَتِمُّوا صَلَاتَكُمْ فَإِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ ))

"بےشک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب مکہ تشریف لاتے تو انہیں دو رکعت پڑھاتے پھر کہتے اے مکہ والو! اپنی نماز پوری کر لو بلاشبہ ہم مسافر قوم ہیں۔"

(المؤطا، کتاب القصر الصلوۃ فی السفر، باب صلوۃ المسافر اذا کان امام او کان وراء الامام (19) بیہقی 3/126 عبدالرزاق بحوالہ نصب الرایہ 2/187)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر غزوہ کیا اور فتح مکہ کے موقع پر میں آپ کے ساتھ حاضر تھا آپ مکہ میں 18 راتیں مقیم رہے آپ صرف دو رکعت نماز پڑھتے اور کہتے: اے شہر والو تم چار رکعات پڑھو بیشک ہم مسافر قوم ہیں۔

(ابوداؤد، کتاب الصلوۃ، باب متی یتم المسافر (1229) بیہقی 3/157 دلائل النبوۃ 5/105 لیکن اس کی سند میں علی بن زید بن جدعان کمزور راوی ہے۔

صفوان سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن صفوان کی عیادت کے لئے آئے انہوں نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر دیا ہم کھڑے ہو گئے تو ہم نے نماز پوری ادا کی۔ (المؤطا، کتاب قصر الصلوۃ فی السفر (21)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسافر نماز پڑھائے تو اگر وہ دو رکعت پر سلام پھیر دے تو مقیم آدمی کھڑے ہو کر اپنی بقیہ نماز پوری کر لیں۔

اس میں شرعی طور پر رخصت ہے اس سے مقیم لوگوں کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا اگر کسی قسم کا خلل واقع ہوتا تو خلیفۃ المسلمین عمر بن الخطاب اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا نہ کرتے جو لوگ اس بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں ان کا یہ رویہ نامناسب ہے۔

جب شریعت میں رخصت موجود ہے تو اسے شرح صدر کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اور مسافر کی اقتداء میں مقیم کی نماز بالاتفاق صحیح ہے اور میرے علم میں کسی اہل علم نے اس میں اختلاف نہیں کیا۔

فقہ حنفی کی کتاب قدوری باب صلوۃ المسافر ص 53 فقہ حنبلی کی المغنی 3/146 رقم المسئلہ 276 فقہ شافعی کی کتاب الام اور فقہ مالکی کے لئے مؤطا ملاحظہ ہو۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الصلوٰۃ-صفحہ104

محدث فتویٰ

تبصرے