وضو کرنے کے بعد شرمگاہ کی طرف چھینٹے مارنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وضو کرنے کے بعد شرمگاہ کی طرف چھینٹے مارنے شرعی طور پر جائز و درست ہیں اس کے ذریعے شیطانی وساوس دور ہوتے ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کرتے تو وضو کرتے اور شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مارتے۔"
(ابوداؤد، کتاب الطھارۃ (134)، ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ (461)، مستدرک حاکم 1/171) (اسے امام حاکم اور امام ذہبی نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے سنن النسائی میں الفاظ اس طرح ہیں کہ (رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ ونضح فرجه) "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے وضو کیا اور اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا۔")
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے شکایت کی کہ میں جب نماز میں ہوتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ میرے ذکر پر تری ہے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اللہ شیطان کو غارت کرے وہ نماز میں انسان کی شرمگاہ کو چھوتا ہے تاکہ اسے یہ خیال دلائے کہ وہ بے وضو ہو گیا ہے جب تم وضو کرو تو اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مار لیا کرو پس اگر تو ایسا خیال پائے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پانی ہے تو اس آدمی نے ایسے ہی کیا تو یہ وسوسہ ختم ہو گیا۔"
(عبدالرزاق 1/151 (583) ابن ابی شیبہ 1/194 باب من کان اذا توضا نضح فرجہ)
نافع بیان کرتے ہیں:
"ابن عمر رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو اپنی شرمگاہ پر چھینٹے مارتے۔"
(ابن ابی شیبہ 1/194)
داؤد بن قیس فرماتے ہیں میں نے محمد بن کعب القرظی سے سوال کیا میں وضو کرتا ہوں اور تری کو پاتا ہوں؟ انہوں نے کہا "جب تم وضو کر لو تو اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مار لیا کرو جب تمہیں وسوسہ آئے تو سمجھنا کہ یہ وہ پانی ہے جس کے میں نے چھینٹے مارے ہیں شیطان تجھے نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ تیرے پاس آئے گا اور تجھے تنگ کرے گا۔" (عبدالرزاق 1/152)
مذکورہ بالا حدیث اور آثار سے ثابت ہوا کہ وضو کے بعد اگر کوئی آدمی اپنے ازار، شلوار وغیرہ کے اوپر وساوس شیطانی کے ازالے کے لئے پانی کے چھینٹے شرمگاہ پر مار لے تو شرعی طور پر درست ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب