سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(8) حیض و نفاس کی حالت میں عبادت کا حکم

  • 21348
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3068

سوال

(8) حیض و نفاس کی حالت میں عبادت کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا محمد یٰسین راہی نے اپنی کتاب احکام دین میں لکھا ہے کہ "حیض و نفاس کی حالت میں نماز پڑھنا، وطی یعنی جماع کرنا، مسجد میں داخل ہونا، روزہ رکھنا، قرآن کو چھونا وغیرہ سب جائز نہیں کیا یہ سب صحیح ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح کریں خاص طور پر مسجد میں داخل ہونے اور قرآن پاک کو چھونے کی وضاحت کریں؟ (ن۔ل۔م۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حیض و نفاس کی حالت میں نماز، روزہ، وطی، مسجد میں داخل ہونا منع ہے۔ قرآن کو چھونا مختلف فیہ ہے اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔

1۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الضحیٰ یا عید الفطر کو عیدگاہ کی طرف نکلے۔ آپ عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اے عورتوں کے گروہ صدقہ کیا کرو تم مجھے اکثر جہنم میں دکھلائی گئی ہو۔ انہوں نے کہا کس وجہ سے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کثرت سے لعن طعن کرتی ہو اور شوہروں کے ساتھ کفر کرتی ہو۔ میں نے کوئی ایسا کم عقل اور کم دین نہیں دیکھا جو تم سے بڑھ کر عقل مند آدمی کی عقل کو زائل کرنے والا ہو۔ عورتوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دین اور عقل کا نقصان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ ؟ قُلْنَ : بَلَى "

کیا عورت کی گواہی آدمی کی گواہی سے آدھی نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے عقل کا نقصان ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ ؟ قُلْنَ : بَلَى ، قَالَ : فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا "

کیا جب عورت ایام ماہواری میں نماز پڑھے گی اور نہ روزہ رکھے گی البتہ جب ان ایام سے گزر جائے گی تو طہارت کی حالت میں روزہ قضاء کرے گی۔ نماز کی قضا نہیں ہو گی جیسا کہ صحیح البخاری، کتاب الحیض، باب لا تقضی الحائض الصلاۃ رقم (321) وغیرہ میں وضاحت موجود ہے۔ حالت نفاس کا بھی یہی حکم ہے۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

(كانت النفساء على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم تقعد بعد نفاسها أربعين يوما أو أربعين ليلة)

(سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب ما جاء فی وقت النفساء (311) سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ و سننھا باب النفساء کم تجلس (648) جامع الترمذی، ابواب الطھارۃ، باب ما جاء فی کم تمکث النفساء (139)

"نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اپنے نفاس کے بعد چالیس دن یا چالیس راتیں بیٹھی رہتی تھیں۔"

ایک دوسری روایت میں ہے کہ مسہ ازدیہ کہتی ہیں میں نے حج کیا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی میں نے کہا ام المومنین بے شک سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ حیض والی نمازیں قضا کریں وہ کہنے لگیں قضاء نہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک عورت چالیس راتیں نفاس میں بیٹھتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نفاس کی حالت والی نماز قضاء کرنے کا حکم اسے نہیں دیتے تھے۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب ما جاء فی وقت النفساء (312) المستدرک للحاکم 1/175 بیہقی 1/341)

امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں:

"و َقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ عَلَى أَنَّ النُّفَسَاءَ تَدَعُ الصَّلاةَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا إِلا أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّهَا تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي"

(جامع ترمذی 1/258 مع تحقیق شیخ احمد شاکر رحمۃ اللہ)

"اہل علم اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن نماز چھوڑیں گی ہاں اگر وہ چالیس دن سے پہلے طہر کی حالت دیکھ لیں تو غسل کریں اور نماز پڑھیں۔"

شیخ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہی مذہب صحیح ہے اور حدیث کے موافق ہے۔

حالت حیض میں جماع بھی منع ہے ارشاد باری تعالٰی ہے:

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّىٰ يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة

"اور وہ آپ سے حیض کے بارے سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیں وہ گندگی ہے۔ حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ جب وہ ستھرائی کر لیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے بےشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حیض والی ہوتی تو وہ اسے گھر سے نکال دیتے اور گھر میں نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ جماع کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے سوال کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی۔

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ ... ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة

آخر آیت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو گھروں میں رکھو اور جماع کے علاوہ باقی تمام کام کرو۔ یہودیوں نے کہا یہ شخص ہر معاملہ میں ہماری مخالفت چاہتا ہے۔ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بےشک یہودی اس طرح کہتے ہیں کیا ہم حالت حیض میں عورتوں سے جماع نہ کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ آپ ان دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ دونوں وہاں سے نکلے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو دودھ کا تحفہ بھیجا گیا تو ہم نے سمجھا کہ آپ ان سے ناراض نہیں ہیں۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب فی مؤکلۃ الحائض و مجامعتھا (258) صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زوجھا (16/302) جامع الترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ (2977) سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب تاویل قول اللہ عزوجل و یسئلونک عن المحیض (287۔367) سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ و سننھا باب ما جاء فی مؤاکلۃ الحائض و سؤرھا (644)

اس آیت قرآنی اور صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت سے حالت حیض میں صحبت و جماع حرام ہے۔ البتہ اس کے ہاتھ کا کھانا، پینا، کنگھی وغیرہ دیگر امور جائز و درست ہیں۔ اگر حالت حیض میں صحبت کو بیٹھے تو اسے ایک دینار یا نصف دینار صدقہ دینا پڑے گا جیسا کہ:

(سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب فی اتیان الحائض (264) جامع الترمذی، ابواب الطھارۃ، باب ما جاء فی الکفارۃ فی ذلک (136) سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ و سننھا باب فی کفارۃ من اتی حائضا (640) میں صحیح حدیث موجود ہے۔

حالت حیض میں عورت مسجد کے اندر عبادت کے لئے نہیں جا سکتی البتہ مسجد سے گزر سکتی ہے اور کوئی چیز مسجد سے اٹھانی ہو تو اٹھا سکتی ہے اس کی رخصت موجود ہے۔ جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر 43 میں جنبی کو جنابت کی حالت میں مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی رخصت دی گئی ہے۔ حیض و نفاس کی ناپاکی جنابت سے غلیظ معلوم ہوتی ہے۔ لہذا حیض و نفاس کی صورت میں بھی مسجد کے اندر ٹھہرنا نہیں چاہیے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:

" قال لى رسول الله صلى الله عليه وسلم ناوليني الخمرة من المسجد قلت إني حائض فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن حيضتك ليست في يدك "

"مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مسجد سے مجھے چٹائی پکڑا دو۔ میں نے کہا میں حائضہ ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔"

(سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، باب فی الحائض تناول من المسجد (261) صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض راس زوجھا ۔۔ (11/298) جامع الترمذی، ابواب الطھارۃ، باب ما جاء فی الحائض تناول الشی من المسجد (134) سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب استخدام الحائض (382)

امام ترمذی فرماتے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔

" وهو قول عامة اهل العلم لا تعلم بينهم اختلافا فى ذالك بان لا باس ان تناول الحائض شيئا من المسجد "

(جامع الترمذی 1/242 تحقیق شیخ احمد شاکر)

"یہ عام اہل علم کا قول ہے اس مسئلہ میں ہم ان کے درمیان اختلاف نہیں جانتے کہ حائضہ کا مسجد سے کسی چیز کے پکڑانے میں کوئی حرج نہیں۔"

رہا حائضہ عورت کے لئے قرآن پاک کو چھونا تو اس کی ممانعت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں اہل علم اس کے بارے مختلف ہیں البتہ فضل اور بہتر یہی ہے کہ مسلمان عورت طہارت کی حالت میں قرآن حکیم کو چھوئے یا کوئی صاف ستھرا کپڑا قرآن مجید کے اوراق کو پلٹنے کے لئے استعمال کرے۔ ہاتھ لگانے سے اجتناب کرے امام نووی رحمہ اللہ اس صورت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اختلاف کے بغیر جائز ہے (المجموع شرح المہذب 3/372) تفصیل کے لیے دیکھیں:

"آپ کے مسائل اور ان کا حل" (جلد اول)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطہارت-صفحہ65

محدث فتویٰ

تبصرے