سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72) کیا معراج والی رات مسجد اقصیٰ کا ایک دروازہ کھلا ہوا تھا؟

  • 21325
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1770

سوال

(72) کیا معراج والی رات مسجد اقصیٰ کا ایک دروازہ کھلا ہوا تھا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک روایت میں آیا ہے کہ وحیہ بن خلیفہ الکلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیصر روم (عیسائی بادشاہ) کے پاس بطور قاصد اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا، آپ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) وہاں تشریف لے گئے تو ہرقل نے ملک شام میں عرب تاجروں کو جمع کیا جن میں ابو سفیان بن حرب اور ان کے ساتھی مشرکین مکہ بھی تھے پھر اس(ہرقل )نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہم میں مذکورہیں۔

ابو سفیان(جو اس وقت مسلمان نہیں تھے) کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ ہرقل کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تحقیر و بے ادبی بیان کریں۔

اسی روایت میں ابو سفیان سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بادشاہ کی نظروں سے گرانے کے لیے اس خوف سے کوئی جھوٹی بات نہیں کہی تاکہ مجھے جھوٹا قرارنہ دیا جائے اور میری تصدیق نہ کی جائے۔اس وقت میرے دل میں خیال آگیا اور میں نے کہا:بادشاہ سلامت سنئے !میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے آپ جان لیں گے کہ انھوں نے غلط کہا ہے ۔ سنئے !ایک دن انھوں نے یہ کہا کہ وہ اس رات مکہ سے چلے اور آپ کی اس مسجد(یعنی بیت المقدس )میں آئے اور پھر صبح سے پہلے واپس مکہ پہنچ گئے۔

میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کالاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس عزت سے بیٹھا ہوا تھا فوراً بول اٹھا یہ بالکل سچ ہے، مجھے اس رات کاعلم ہے۔قیصر نے(تعجب خیز نظر سے)اس کی طرف دیکھا اور پوچھا :تجھے کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا:میری یہ پکی عادت تھی کہ رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے خود بند کرتا تھا۔اور اس رات جب میں نے دروازے بند کئے تو ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا ۔ میں نے بہت زور لگایا لیکن کواڑاپنی جگہ سے سرکتا بھی نہیں تھا۔ پھر میں نے اسی وقت اپنے ماتحتوں کو آواز دی وہ آئے اور ہم سب نے زور لگایا۔ لیکن ناکام رہے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں جو اپنی جگہ سے ذرا بھی حرکت نہیں کرتا۔

میں نے کار پنیٹر(بڑھئی )بلوائے تو انھوں نے دیکھ کر کہا:اس پر عمارت کا کچھ حصہ اور بڑا پتھر گر گیا ہے ہم صبح تک اسے ہلا نہیں سکتے لہٰذا صبح دیکھیں گے کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔یہ دروازہ رات کو کھلا رہا پھر میں صبح سویرے اس دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو پتھریلی چٹان تھی اس میں سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا تھا اس کا اثر اور نشان موجود تھا۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنے ساتھیوں سے کہا:آج کی رات ہماری مسجد کسی نبی کے لیے کھلی رکھی گئی تھی۔ اور انھوں نے اس میں ضرور نماز پڑھی ہے۔

یہ روایت تفسیر ابن کثیر (مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ ج3ص215۔216)میں بحوالہ دلائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبہانی مذکورہے۔ کیا یہ روایت اصول حدیث اور اسماء الرجال کی روسے صحیح اور قابل حجت ہے؟ تحقیق کر کے جواب عطا فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیراً(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے حافظ ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب دلائل النبوۃ سے نامکمل سند کے ساتھ نقل کی ہے۔

(دیکھئے تفسیر ابن کثیر مع تحقیق عبدالرزاق المہدی ج4ص115)

لیکن ہمیں یہ روایت دلائل النبوۃ کے مطبوعہ نسخے یا دوسری کتاب میں مکمل سند کے ساتھ نہیں ملی ،لہٰذا حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی ذکر کردہ سند کی تحقیق درج ذیل ہے:

یہ روایت چار وجہ سے ضعیف (بلکہ سخت ضعیف )ہے:

1۔اس کا بنیادی راوی محمد بن عمر بن واقدی الاسلمی جمہور محدثین کے نزدیک مجروح ہے۔ حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"ضعفہ الجمہور"جمہور نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔(مجمع الزوائد ج3ص255)

مشہور صوفی حافظ ابن الملقن نے فرمایا:"

"وقد ضعفه الجمهور ونسبه الي الوضع:الرازي والنسائي"

"اسے جمہور ضعیف کہا اور(ابو حاتم)الرازی رحمۃ اللہ علیہ  اور نسائی نے وضاع (احادیث گھڑےوالا ) قراردیا۔(البدر المنیرج5ص324)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"متروک الحدیث"وہ حدیث میں متروک ہے۔(کتاب الضعفاء بتحقیقی :344)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے مزید فرمایا:"کذبہ احمد"احمد(بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )نےاسے جھوٹا قراردیا ہے۔(الکامل لا بن عدی ج6ص2245دوسرا نسخہ ج7 ص481وسندہ صحیح)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا"

"واقدی احادیث کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا وہ ابن اخی الزھری کی حدیث کو معمر کے ذمے ڈال دیتا تھا اور اسی طرح کی حرکتیں کرتا تھا۔

امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"كما وصف وأشد لأنه عندي ممن يضع الحديث"

"جس طرح انھوں (احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  )نے فرمایا: وہی بات بات بلکہ اس سے سخت ہے کیونکہ وہ میرے نزدیک حدیث گھڑتا تھا۔(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح)

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"كتب الواقدي كذب"

"واقدی کی کتابیں جهوٹ (کا پلندا) ہیں"(کتاب الجرح التعدیل ج8ص21وسندہ صحیح)

امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"والكذابون المعروفون بوضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة. بن أبي يحيى بالمدينة والواقدي ببغداد، ومقاتل بن سليمان بخراسان، ومحمد بن السعيد بالشام، يعرف بالمصلوب"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں حدیثیں گھڑنے والے مشہور جھوٹے چار ہیں۔

(ابراہیم بن محمد)بن ابی یحییٰ مدینے میں واقدی (محمد بن عمر بن واقد الاسلمی) بغداد میں مقاتل بن سلیمان خراسان میں اور محمد بن سعید شام میں جسے مصلوب کہا جاتا ہے۔(آخر کتاب الضعفاء والمتروکین ص310دوسرا نسخہ ص265)

اس شدید جرح اور جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں واقدی کے لیے بعض علماء کی توثیق مردود اور غلط ہے۔

تنبیہ:1۔سیرو مغازی یا تاریخ و حدیث جس سند میں بھی واقدی آجائے وہ سخت ضعیف مردود اور موضوع ہوتی ہے۔

تنبیہ:(2۔جس راوی کی بعض نے توثیق کی ہو لیکن جمہور نے جرح کی ہواور تطبیق ممکن نہ ہو تو اس کی منفرد روایت ضعیف و مردود ہوتی ہے۔

2۔اس روایت کا ایک راوی عمر بن عبد اللہ مولیٰ غفرہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"ضعيف وكان كثير الارسال" (تقریب التہذیب :4934)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"عمر ضعیف"(تلخیص المستدرک ج1ص495ح1820)

3۔محمد بن کعب القرظی رحمۃ اللہ علیہ  تابعی تھے اور یہ روایت مرسل ہے اگر ان تک یہ سند صحیح بھی ہوتی تو مرسل (یعنی منقطع )ہونے کی وجہ سے ضعیف تھی کیونکہ انھوں نے (بشرط صحت)صحابی کا ذکر نہیں کیا اور راجح تحقیق میں مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔دیکھئے مقدمہ صحیح مسلم(ص20،طبع دارالسلام)اور العلل الصغیر للترمذی(ص896،897طبع دارالسلام مع السنن الترمذی)

4۔امام ابو نعیم سے لے کر واقدی تک سند نامعلوم ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ اس میں کوئی مجروح یا مجہول راوی پوشیدہ ہو۔ واللہ اعلم۔

خلاصۃ التحقیق:

یہ ہے کہ روایت مسئولہ و مذکورہ بلحاظ سخت ضعیف و مردود ہے، لہٰذا جرح کے بغیر اسے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔وما علینا الاالبلاغ۔(26/جون 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ262

محدث فتویٰ

تبصرے