السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اُم طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رَأَيْتُ رَبِّي فِي المنام في صورة شاب مُوَقَّرٍ فِي خَضِرٍ، عليه نَعْلانِ من ذهب، وَعَلَى وجهه فراش مِنْ ذهب "
"میں نے اپنے رب کو خواب میں ایک نوجوان کی شکل میں دیکھا جو بڑے بالوں والا اور سبز لباس میں تھا اس نے سونے کے جوتے پہن رکھے تھے اور اس کے چہرے پر سونے کافراس تھا۔(دیکھئے امین الفتاوی ج1ص8۔9)کیا یہ روایت صحیح ہے؟(ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس روایت کی سند درج ذیل ہے۔
"عن عمرو بن الحارث عن سعيد بن أبي هلال أن مروان بن عثمان حدثه عن عمارة عن أم الطفيل امرأة أبي بن كعب ....."
(المعجم الکبیر للطبرانی 25/143ح346،السنۃ لابن ابی عاصم :471دوسرا نسخہ :480)
اس سند کا ایک راوی مروان بن عثمان جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے:
اسے ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف کہا: (کتاب الجرح والتعدل 8/272)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"ضعیف "(تقریب التہذیب 6572نیز دیکھئے انوارالصحیفۃ ص326)
عمارہ بن عامر کے بارے میں حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"عمارة بن عامر عن أم الطفيل امرأة أبي بن كعب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:رأيت ربي"حديثا منكرا لم يسمع عمارة من أم الطفيل وإنما ذكرته لكي لا يغتر الناظر فيه فيحتج به وروايته من حديث أهل مصر"
"وہ اُم طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ اُبی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک منکر حدیث بیان کرتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے اپنے رب کو دیکھا ۔ عمارہ نے اُم الطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نہیں سنا اور میں نے یہ روایت اس لیے ذکر کی ہےکہ کوئی دیکھنے والا دھوکے میں مبتلا ہو کر اس سے اہل مصر کی حدیثوں میں حجت نہ پکڑلے۔(کتاب الثقات 5/245)
اس ضعیف و مردود روایت کو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا "حديث صحيح بما قبله . قال الشيخ ناصر : واسناده ضعيف مظلم" کہنا عجائب و غرائب میں سے ہے۔ اس روایت میں بہت سے الفاظ مثلاً :نعلان من ذھب اور فراش من ذہب کسی دوسری سند سے قطعاً ثابت نہیں نیز موقر اور موفر فراس اور فراش کے تلفظ میں بھی اختلاف ہے۔ علماء کو چاہیے کہ جھوٹی اور مردود روایات بیان کرنے سے اجتناب کریں اور پوری کوشش کر کے صرف صحیح و ثابت روایات ہی بیان کریں۔(11/مارچ 20013ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب