سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) بخل ،بزدلی اور عبادت میں سستی کا علاج

  • 21307
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1179

سوال

(54) بخل ،بزدلی اور عبادت میں سستی کا علاج

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فضائل اعمال کی کتاب فضائل ذکر کے باب سوئم فصل دوم کے تحت حدیث نمبر 5کی تحقیق و تخریج درکار ہے یہ حدیث درج ذیل ہے۔

"عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ الله عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ هَالَهُ اللَّيْلُ أَنْ يُكَابِدَهُ، وَبَخِلَ بِالْمَالِ أَنْ يُنْفِقَهُ، وَجَبُنَ عَنِ الْعَدُوِّ أَنْ يُقَاتِلَهُ، فَلْيُكْثِرْ أَنْ يَقُولَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ جَبَلِ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ يُنْفَقَانِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ جو شخص رات کو مشقت جھیلنے سے ڈرتا ہو( کہ راتوں کو جاگنے اور عبادت میں مشغول رہنے سے قاصر ہو)یا بخل کی وجہ سے مال خرچ کرنا دشوار ہو یا بزدلی کی وجہ سے جہاد کی ہمت نہ پڑتی ہو اس کو چاہیے کہ:

"سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ"

کثرت سے پڑھا کرے کہ اللہ کے نزدیک یہ کلام پہاڑ کی بقدر سونا خرچ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔

"رواه الفريابي والطبراني واللفظ له وهو حديث غريب ولا بأس بإسناده إن شاء الله....." (گل رحمٰن تخت بھائی ضلع مروان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فریابی کی روایت (جس کا متن یہاں مذکور نہیں )کی سند المعجم الکبیر للطبرانی (8/263ح7877) میں مذکورہے اور یہ سند عثمان بن ابی العاتکہ (ضعفہ الجمہور مجمع الزوائد 10/210)اور علی بن یزید الصبہانی۔

(ضعیف /تقریب التہذیب :4817)کی وجہ سے ضعیف ہے۔

طبرانی والی روایت معمولی اختلاف کے ساتھ درج ذیل سند سے مروی ہے:

"حدثنا أحمد بن محمد بن يحيى بن حمزة الدمشقي حدثني أبي عن أبيه ثنا حداد العذري مع ابن جابر عن العباس بن ميمون عن القاسم عن أبي أمامة" (المعجم الکبیر 8/228ح7795)

اس سند میں احمد بن یحییٰ بن حمزہ اپنے باپ سے روایت کرنے میں سخت مجروح ہے۔(مثلاًدیکھئے لسان المیزان 1/650الثقات لا بن حبان ترجمۃ محمد بن یحییٰ 9/74)

ایک معاصر ابو الطیب نائف بن صلاح بن علی المنصوری نے شیوخ طبرانی پر جو کتاب لکھی ہے اس میں اسے "ضعیف صاحب مناکیر وغرائب"قراردیا ہے۔

(ارشاد القاضی والدانی تراجم شیوخ الطبرانی ص180رقم 214)

اس سند کے دوسرے راوی حدادالعذری کی توثیق نامعلوم ہے۔

اس سند کے تیسرے راوی عباس بن میمون کی توثیق بھی معلوم نہیں۔

ثابت ہوا کہ یہ سند تین وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔

دوسری سند:

المعجم الکبیر میں اس روایت کی دوسری سند بھی موجود ہے لیکن اس میں سلیمان احمد الواسطی راوی ہے۔ (ج8ص230ح7800نیز دیکھئے مسند الشامبین 1/114ح 174 الترغیب لا بن شاہین 1/180ح157)

سلیمان الواسطی جمہور کے نزدیک مجروح ہے اور ہیثمی نے فرمایا:

"وثقه عبدان وضعفه الجمهور"(مجمع الزوائد 10/94)

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس شخص پر "فیہ نظر" کہہ کر شدید جرح کی ہے۔(دیکھئے التاریخ الکبیر4/3)

ابن عدی نے فرمایا:میرے نزدیک وہ حدیثیں چوری کرتا تھا یا اس پر حدیثیں مشتبہ (گڈ مڈ)ہو جاتی تھیں(الکامل 3/1140دوسرا نسخہ 4/297)

تیسری سند:

یہ ضعیف و مردود سند شروع میں بحوالہ فریابی و طبرانی گزر چکی ہے۔

شواہد :سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف منسوب روایت الترغیب والترہیب للا صبہانی (ق762مصورۃ الجامعۃ الاسلامیہ)میں ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ 6/484ح2714)

اس سند میں یوسف بن العنبس الیمانی نامعلوم ہے عکرمہ بن عمار اور یحییٰ بن ابی اکثیردونوں مدلس ہیں اور یہ سند عن سے ہے نیز عکرمہ کی یحییٰ سے روایت میں کلام ہے لہٰذا یہ سند چار وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب روایت (متن کے اختلاف کے ساتھ)مسند البزار (البحرالزخار11/168ح490) اور مسند عبد بن حمید (641) وغیرہما میں اسرائیل عن ابی یحییٰ عن مجاہد عن ابن عباس کی سند سے مذکور ہے۔

اس سند میں ابو یحییٰ القتات جمہور کے نزدیک ضعیف ہے(مجمع الزوائد10/74)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس مفہوم کی ایک روایت معجم الاسماعیلی میں مذکورہے۔ (3،2/27ت342،نیز دیکھئے الصحیحہ للا لبانی 6/482ح2714)

یہ سند سفیان ثوری ثقہ مدلس کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے لہٰذا سےوھذا اسنادصحیح " کہنا غلط ہے۔

شعب الایمان للبیہقی (ح607دوسرا نسخہ 599)میں سفیان ثوری کی متابعت حمزہ الیزیات سے مروی ہے لیکن اس سند میں مہران بن ہارون بن علی الرازی کی توثیق نامعلوم ہے۔

یہی روایت اس متن کے بغیر مسند احمد(1/387ح367)وغیرہ میں مذکورہے لیکن اس کی سند میں صباح بن محمد ضعیف ہے۔(دیکھئے مشکوۃ المصابیح بتحقیقی:4994)

خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ یہ مرفوع روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔

قائدہ عظیمہ :

محمد بن طلحہ بن مصرف الیمانی نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے فرمایا:"

"عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم:إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلاَقَكُمْ ، كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ , وَإِنَّ اللَّهَ , عَزَّ وَجَلَّ , يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ ، وَمَنْ لاَ يُحِبُّ , وَلاَ يُعْطِي الدِّينَ إِلاَّ لِمَنْ أَحَبَّ , فَمَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ الدِّينَ فَقَدْ أَحَبَّهُ ....."

"بے شک اللہ تعالیٰ نے تمھارےدرمیان اس طرح اخلاق تقسم فرمائے ہیں جس طرح تمھارے درمیان رزق تقسیم فرمایا ہے۔ اللہ جسے پسند کرتا ہے اسے مال دیتا ہے۔اور جسے وہ پسند نہیں کرتا اسے بھی مال دیتا ہے اور ایمان صرف اسے ہی دیتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے پھر جب وہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے اسے ایمان دیتا ہے تو جو شخص مال (خرچ کرنے )کے بارے میں بخل کرے (یعنی وہ ڈرے کہ خرچ کرنے سے مال ختم ہو جائے گا)اور دشمن کے خلاف جہاد کرنے سے ڈرےاور رات کو عبادت کرنے)تکلیف و مشقت محسوس کرے (یعنی اس میں مال خرچ کرنے اور رات عبادت میں گزارنے کا حوصلہ نہیں)تو اسے کثرت سے لاالٰہ الا اللہ،اللہ اکبر، الحمد للہ اور سبحان اللہ پڑھنا چاہیے( المعجم الکبیر للطبرانی 9/229ح8990)

اس موقوف روایت کی سند محمد بن طلحہ (وثقہ الجمہور)کی وجہ سے حسن لذاتہ ہے،نیز زہیر بن معاویہ (الزہدلابی داؤد157)اورمالک بن مغول (حلیۃ الاولیاء4/165)نے ان کی متابعت کر رکھی ہے لہٰذایہ اثر صحیح ہے۔

امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ نے بھی موقوف کو صحیح قراردیا ہے۔(العلل 5/271سوال872)

بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ موقوف روایت حکماً مرفوع ہے۔ واللہ اعلم (11/ فروری 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ177

محدث فتویٰ

تبصرے