السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکی کسی مشکل میں ایک جاننے والے سے مدد حاصل کرتی ہے اور وہ شخص اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس لڑکی کو ڈرا دھمکا کر اس سے نکاح کر لیتا ہے۔ لڑکی نہ تو اس کی فیملی سے ہے نہ ہی علاقہ سے۔ دولت ،حسن اور تعلیم میں بھی لڑکی لڑکے سے افضل ہے۔ نکاح کے دوران لڑکی خاندان میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔ لڑکا پہلے سے شادی شدہ بھی ہے۔ لڑکی نکاح سے انکار کرتی ہے تو لڑکا اسے خاندان میں بے عزت کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکی وغیرہ دیتا ہے۔ اس موقع پر لڑکی کو اپنے گھر اور علاقہ کا اتا پتہ معلوم نہیں اور وہ مکمل لڑکے کے کنٹرول میں ہے۔ وہ لڑکا اسے ایک ہی صورت میں گھر چھوڑ کے آنے پر راضی ہے جب وہ نکاح کے لیے ہاں کرتی ہے۔ لڑکی کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی نکاح کیا گیا اور وہ دل اور دماغ سے کبھی اس نکاح کو نہیں مانتی۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔ کہ مندرجہ بالا صورت میں زبردستی کیا گیا نکاح جائز ہے یا ناجائز ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جو عورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔"(السنن الکبری للبیہقی 7/105۔وسندہ حسن والحدیث صحیح سنن ابی داؤد:2083،سنن الترمذی 1102 وقال"ھذا حدیث حسن"صحیح ابن حبان 4042وصححہ الحاکم علی شرط الشیخین 2/168)
اس روایت کے بہت سے شواہد بھی ہیں۔ بلکہ علامہ سیوطی نے اسے متواتر قراردیا ہے۔(دیکھئے قطف الازھار:87)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"لانكاح إلا بإذن ولي مرشد ، أو سلطان"
"خیر خواہ ولی یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا "(الاوسط لا بن المنذر 8/264ح7183وسندہ حسن )
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، وغیرہم کا یہی قول ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔(دیکھیے سنن الترمذی:1102)
لہٰذا ثابت ہو اکہ صورت مسئولہ میں اس لڑکی کا نکاح نہیں ہوا۔(24/مارچ 2013ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب