سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) عورتوں کا قبرستان میں جانا؟

  • 21291
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1585

سوال

(38) عورتوں کا قبرستان میں جانا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت قبرستان جاسکتی ہے؟قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔ (محمد ذیشان سبحانی ،سیالکوٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبداللہ بن ابی ملیکہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ ایک دن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   قبرستان سے آئیں تو پوچھا گیا؛اے ام المومنین  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ! آپ کہاں سے آئی ہیں؟آپ نے فرمایا:میں اپنے بھائی عبدالرحمان بن ابی بکر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی قبر سے آئی ہوں،تو پوچھا گیا :کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایاتھا؟انھوں نے جواب دیا:" نعم، كان نهي ثم أمر بزيارتها" جی ہاں!آپ نے منع فرمایا تھا،پھر(بعد میں) زیارت کاحکم دے دیا تھا۔

(مستدرک للحاکم 376ھ1392 وسندہ صحیح السنن الکبریٰ للبیہقی 4/78ح6999سنن ؟؟؟)

اس حدیث سے دو مسئلے ثابت ہیں:

1۔قبروں کی زیارت سے ممانعت والا حکم منسوخ ہے۔

2۔عورتوں کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کی قبروں پر(کبھی کبھار) جانا جائز وغیرممنوع ہے۔صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيارَة القُبُورِ فَزُوروها".

"میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا پس(اب) ان کی زیارت کیاکرو۔(صحیح مسلم ج1ص314ح977 ترقیم دارالسلام 2260)

اس  حدیث کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں لہذا ان کے لیے زیارت قبورجائز ہے۔

سیدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک عورت کے پاس سےگزرے جو کہ ایک قبر کے قریب(بیٹھی) رورہی تھی تو آپ نے فرمایا:

"اتَّقِ اللَّهَ وَاصْبِرِي"  "تو اللہ سے ڈر اور صبرکر"(صحیح بخاری :1252 صحیح مسلم:926 دارالسلام :2141)

اس حدیث سے بھی عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کاجواز ثابت ہے اوردوسرے دلائل مثلاً سیدہ ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث وغیرہ سے بھی یہی ظاہر ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کی قبروں کی زیارت کے لیے کبھی کبھار جانا منع نہیں ہے۔

اگر کوئی کہے کہ آپ نے رشتہ داروں اور کبھی کبھار کی شرطیں کیوں لگائی ہیں؟تو اس کی وضاحت درج ذیل ہے:

1۔صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے "زوارات القبور" یعنی کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں،پر لعنت فرمائی ہے۔"(سنن ترمذی :1056وقال:"ھذا حدیث حسن صحیح وسندہ حسن)

"زوارات" مبالغے کا صیغہ ہے، يعنی عورتوں کے لیے کثرت سے قبروں کی زیارت منع بلکہ حرام ہے۔

تنبیہ:۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے "زائرات القبور" پر لعنت فرمائی ہے۔(سنن ترمذی 320 وقال:"حدیث حسن"سنن ابی داود:3236 سنن النسائی 2045)

اس  روایت کی سند دووجہ سےضعیف ہے:

اول:ابوصالح مولیٰ ام ہانی جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔

دوم:ابوصالح نے اس روایت کو  اختلاط کے بعد بیان کیا تھا ،لہذا اس روایت کو حسن قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

2۔سیدنا عبداللہ بن عمرو(بن العاص) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ جارہے تھے،آپ نے ایک عورت کو دیکھا جو یہ نہیں سمجھتی تھی کہ آپ نے اسے پہچان لیا ہے،پھر جب آپ راستے کے درمیان  پہنچے تو کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ وہ عورت قریب آگئی،دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹی فاطمہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) تھیں۔آپ نےانھیں فرمایا:اے فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ! اپنے گھر سے کیوں باہر آئی ہو؟انھوں نے جواب دیا:میں اس میت والوں کے گھر گئی تھی ،تاکہ تعزیت کروں اور مغفرت کی دعاکروں۔آپ نے فرمایا:"شاید تو اُن کے ساتھ کُدیٰ(قبرستان) تک بھی گئی ہے؟"انھوں(سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) نے جواب دیا:میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں کہ وہاں(قبرستان تک) گئی ہوں اور میں نے آپ کو اس کے بارےمیں(منع کرتے ہوئے )سنا ہے۔الخ(سنن ابی داود 3123 )

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور ربیعہ بن سیف المعافری کو جمہور محدثین نےثقہ وصدوق قراردیاہے ،لہذا امام نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  کا انھیں ضعیف قراردینا جمہور کی توثیق کے بعد مضر نہیں ہے۔

اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کےعلاوہ غیرلوگوں کی قبروں کی زیارت جائز نہیں ہے۔

ان روایات کے بعد آخر میں ،عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کے بارے میں خلاصۃ التحقیق درج ذیل ہے:

1۔عورتوں کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں مثلاً بھائی ،بیٹا اور شوہر وغیرہ کی قبروں پر کبھی کبھار جانا جائز ہے۔

2۔غیر لوگوں کی قبروں پر عورتوں کا جانا حرام ہے۔

3۔جو عورتیں "بابوں"مزاروں ،درباروں اور پیروں کی قبروں پر جاتی ہیں،یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔

4۔عورتوں کا کثرت سے قبروں کی زیارت کرنا حرام ہے۔

5۔قبروں کی زیارت کے لیے جانے کے کئی مقاصد ہیں،مثلاً:

اول: مُردوں کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کی جائے۔

دوم:موت اورآخرت کو یاد کیا  جائے۔

6۔قبروں پر جاکر قبر والوں سے دعائیں ومرادیں مانگنا،اپنی حاجات میں انھیں پکارنا،مشکل کشا اور حاجت رواسمجھنا،نیز صفات الٰہی مختصہ بذات باری تعالیٰ کو اموات کے ساتھ  منسوب کرناکفر،شرک اور ظلم عظیم ہے۔(21/ستمبر 2011ء جامعۃ الامام البخاری ،سرگودھا)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نمازِ جنازه سے متعلق مسائل-صفحہ133

محدث فتویٰ

تبصرے