سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) میت دفن کرنے کے بعد قبر پر اجتماعی دعا

  • 21287
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1442

سوال

(34) میت دفن کرنے کے بعد قبر پر اجتماعی دعا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت دفن کرنے کے بعد قبر پر میت کے لیے اجتماعی دعا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے؟

2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمانا:((اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ))انفرادی ہے یا اجتماعی؟

3۔نیز السنن الکبریٰ للبیہقی(ج4 ص56) میں کتاب الجنائز باب ما یقال بعد الدفن میں ابن  ابی ملیکہ کہتے ہیں:

"رأيت عبد الله بن عباس لما فرغ من قبر عبد الله بن السائب وقام الناس عنه قام ابن عباس فوقف عليه ودعا له"

4۔اسی طرح مصنف عبدالرزاق واردآثار کتاب الجنائز باب: "الدعاء للميت حين يفرغ منه"کی اسنادی حیثیت پر روشنی ڈالیں۔(محمد رمضان سلفی،عارف والا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ:

كان النبي صلي الله عليه وسلم : (إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ)

"جب نبي كريم  صلی اللہ علیہ وسلم  میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو وہاں کھڑے رہتے ،پھر فرماتے:"اپنے بھائی کے لیے دعائے استغفار کرو اور اُس کے لیے(اللہ سے) ثابت قدمی کا سوال کرو،کیونکہ اب اس سے سوال جواب ہوں گے۔"

(سنن ابی داود 3221 باب الاستغفار عندالقبر للمیت فی وقت الانصراف وسندہ حسن وصححہ الحاکم 1/370 ح1372 ووافقہ الذہبی)

اس حدیث سے دو مسئلے ثابت ہیں:

1۔دفن کے بعد میت کے لیے  دعا

2۔اجتماعی دعا

حافظ عبداللہ روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ  نے حدیث مذکور کے بعد لکھا ہے:

"اس طرح قبر پر اختیار ہے ہاتھ اُٹھا کردعا کرے یا بغیر ہاتھ اُٹھائے ہاں ہاتھ اُٹھانا آداب دُعا سے ہے اس لیے اٹھانا بہتر ہے مگرلازم نہ سمجھے۔اور اگر کوئی ہاتھ نہ اُٹھائے تو اس پر اعتراض نہ کرے۔۔۔"(فتاویٰ اہلحدیث ج2 ص 131)

2۔چونکہ اس حدیث میں جمع کا صیغہ ہے،لہذا یہ دعا اجتماعی ہے۔

3۔اس اثر کا ترجمہ درج ذیل ہے:

ابن ابی ملیکہ(رحمۃاللہ علیہ) نے فرمایا:میں نے دیکھا ،جب(سیدنا) عبداللہ بن عباس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) عبداللہ بن السائب( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی قبر سے فارغ ہوئے تو لوگ لوگ ان کے پاس کھڑے ہوگئے(اور) ابن عباس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بھی) کھڑے ہوکر ان(عبداللہ بن السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے لیے دعا فرمائی۔(السنن الکبریٰ للبیہقی المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ج1ص 222وسندہ صحیح)

اس روایت(اثر) کی سند صحیح ہے۔

4۔مصنف عبدالرزاق کے باب مذکور میں ہے:

"وعن أيوب، قال: وقف ابن المنكدر على قبر بعد أن فرغ منه، فقال: «اللهم ثبته، هو الآن يسأل"

(محمد) بن المنکدر(رحمۃ اللہ علیہ) قبر(یعنی دفن) سے فارغ ہوئے تو فرمایا:اے اللہ!اسے ثابت قدم رکھ،اس سے اب سوال جواب ہوں گے۔(ج 3ص 509 ح6504)

اس کی سند صحیح ہے اور اس باب کی باقی تمام اسانید کی یہاں سندیں ضعیف ہیں۔مصنف ابن ابی شیبہ میں عبداللہ بن ابی بکر(بن محمد بن عمرو بن حزم  رحمۃ اللہ علیہ ) سے روایت ہے کہ (سیدنا) انس بن مالک( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) قبر پر مٹی ڈالے جانے کے بعد کھڑے ہوجاتے،پھر میت کے لیے دعا کرتے تھے۔(ج3 ص 330 ح11705 ملخصاً وسندہ صحیح)

احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی قبر پر کھڑے ہوکر دعا کی۔

(مصنف بن ابی شیبہ 3/331ح11708 وسندہ حسن خالد ھو ابن(؟) حسن الحدیث)

ایوب السختیانی  رحمۃ اللہ علیہ  قبر پر کھڑے ہوکر میت کے لیے دعا کرتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ 3/331 ح 11710 وسندہ صحیح)

یہ آثار اور حدیث مرفوع اس بات کی دلیل ہے کہ قبر پر دفن کے بعد اجتماع اور انفرادی دونوں طرح سے دعاکرنا صحیح ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نمازِ جنازه سے متعلق مسائل-صفحہ125

محدث فتویٰ

تبصرے