سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) نماز ظہر سے پہلے چار سنتوں کے احکام

  • 21284
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5444

سوال

(31) نماز ظہر سے پہلے چار سنتوں کے احکام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ظہر کی فرض رکعات سے پہلے چار رکعات سنت کےمتعلق کیا احکام ہیں؟اگر چار رکعات سنت فرض رکعات سے پہلے نہ پڑھ سکیں تو کیاحکم ہے؟(عبدالمتین۔آسٹریلیا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔(صحیح بخاری :1182)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر باہر جاکرلوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔الخ(صحیح مسلم:730(1699)

سیدنا عبداللہ بن السائب بن صیفی المخزومی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  زوال کے بعد ،ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے  تھے،پھر فرماتے:"اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارالٰہی میں) میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش) کیاجائے۔"(سنن الترمذی :478  وقال:"حسن غریب"وسندہ صحیح)

سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔(سنن الترمذی :598۔599۔ملخصاً وقال:"ھذا حدیث حسن"وسندہ حسن)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجہ محترمہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

"مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ"

"جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں  کی حفاظت کرے)یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے گاتو) اللہ تعالیٰ نے اسے آگ پر حرام قراردیا ہے،یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔"

(سنن الترمذی:428 وقال:"ھذا حدیث حسن صحیح غریب من ھذالوجہ "وسندہ حسن،شرح السنۃ للبغوی 3/464 ح889 ونقل عن الترمذی قولہ"حسن غریب"واقرہ المعجم الکبیر للطبرانی 23،235ح453 ،مسند الشامین لہ:1524)

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور اس کے بہت سے شواہد بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔

اس سند کے ایک راوی ابوعبدالرحمٰن قاسم بن عبدالرحمٰن الدمشقی قولِ راجح میں جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں۔

عینی حنفی نے لکھا ہے:"وثقہ الجمھور"الخ(عمدۃ القاری 7/146 ح1103 دیکھئے میری کتاب تحقیقی مقالات 3/400)

قاسم بن عبدالرحمان کے شاگرد علاء بن حارث بن عبدالوارث الدمشقی صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ وصدوق ہیں۔جمہور کی توثیق کے ساتھ بعض کی طرف سے ان پر دو اعتراضات بھی کیے گئے ہیں:

1۔اختلاط:۔

(یہ اعتراض ثابت نہ ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے)

اسی اعتراض کا راوی ابوعبید الآجری مجہول الحال ہے۔

2۔قدریت:۔

(یہ ان سے باسندصحیح ہرگز ثابت نہیں کہ وہ تقدیر کے منکر تھے)

جمہور کی  توثیق کے بعد ایسا(قدریت وغیرہ کا) اعتراض مردود ہوتا ہے  اور اس اعتراض کا روایت حدیث کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں۔

تنبیہ:۔

اس باب میں اور روایات بھی موجود ہیں۔

سیدنا عمر بن الخطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے گھر میں ظہر سے پہلے چاررکعتیں پڑھی ہیں۔

(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/199 ح5942 وسندہ صحیح ،5945 ملخصاً وسندہ صحیح)

عبدالرحمان بن عبد القاری  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ وہ عمر بن خطاب( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ ظہر سے پہلے(نفل) نماز پڑھ رہے ہیں،پس انھوں نے پوچھا:اے امیر المومنین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! یہ کیا(کونسی) نماز ہے؟تو آپ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے فرمایا:یہ رات کی نماز(میں سے) ہے۔(تہذیب الآثار لابن جریر الطبری مسند عمر القسم الثانی ص96ح2863وسندہ صحیح)

یعنی یہ رات کی(تہجد کی) نماز رہ گئی تھی ،جو میں اب پڑھ رہا ہوں۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" جو شخص اپنے حزب(یعنی اوراد واذکار) یا اس کے کسی حصے سے سوریارہ جائے تو نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان اسے پڑھ لے،اسے اسی طرح ثواب ملے گا جیسا کہ رات کو پڑھا ہے۔(صحیح مسلم 747(1745)

اس حدیث سے امام ابن خزیمہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر تہجد کی نما رہ جائے تو دن کو،حدیث میں مذکورہ وقت میں پڑھ لیں۔(دیکھئے صحیح ابن خذیمہ 2/قبل ح1171)

جاہلیت میں مسلمان ہونے والے عظیم ثقہ وعابد تابعی عمرو بن میمون الاوودی رحمۃ اللہ علیہ (م74ھ) نے  فرمایا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  ظہر سے پہلے چاررکعتیں اور صبح سے پہلے دو رکعتیں کسی حال میں بھی ترک نہیں کیاکرتے تھے۔(ابن ابی شیبہ:5943 وسندہ صحیح)

ابو الاحوص سلام بن سلیم الحنفی مولاھم الکوفی کا حصین بن عبدالرحمان السلمی سے سماع  ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے ،ان کی حصین سے روایات صحیح مسلم(1283(3094)(1623) (4181) میں ہیں۔

ان تمام روایات وآثار کا خلاصہ یہ ہے کہ ظہر سے پہلے چار رکعتیں(نوافل یاسنتیں)پڑھنا بالکل صحیح ہے۔یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ظہر سے پہلے دورکعتیں پڑھتے تھے۔(صحیح بخاری 1180 واللفظ لہ صحیح مسلم 729 (1698)

اس سے ثابت ہوا کہ ظہر کے فرضوں سے پہلے صرف دو سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"ہردواذانوں کے درمیان (نفل) نماز ہے۔"پھر آپ نے(تیسری یا چوتھی دفعہ) فرمایا:

((لِمَنْ شَاءَ)) جس کی مرضی ہو۔"

(صحیح بخاری :627واللفظ لہ صحیح مسلم:838(1940۔1941)

اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی یہ دو رکعتیں(یا چار رکعتیں کسی وجہ سے) نہ پڑھ سکے تو جائز ہے۔

تنبیہ:۔

چار سنتیں دو دو کرکے پڑھنا مسنون اور بہتر ہے ،جیسا کہ:

"صَلاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى " والی صحیح حدیث سے ثابت ہے ،نیز سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بھی یہ فتویٰ ہے۔(دیکھئے توضیح الاحکام یعنی فتاویٰ علمیہ 1/424)

حسن بصری  رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی ایسا ہی فتویٰ ہے،اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  بھی اسی پر عامل تھے۔(ایضاً ص (25؟) بحوالہ مسائل احمد واسحاق روایۃ الکوسج 433،405)

اگر چار رکعتیں دو دو کی بجائے صرف ایک سلام سے پڑھ لی جائیں تو بھی جائزہے،جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عمل سے  ثابت ہے۔(دیکھئے مصنف عبدالرزاق :4225 الاوسط لابن المنذر ،5/236 وسندہ حسن)

سوال کی دوسری شق کاجواب یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب ظہر سے پہلے چاررکعتیں نہ پڑھ پاتے تو انھیں بعد میں پڑھ لیتے تھے۔(سنن ترمذی 426 وقال:حسن غریب وسندہ  صحیح)

ایک اور روایت میں آیا ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  یہ چار رکعتیں نمازظہر کے بعد دو سنتوں کے بعد پڑھتے تھے۔(سنن ابن ماجہ:1158)

یہ روایت قیس بن الربیع ضعیف راوی(ضعفہ الجمہور) کی وجہ سے ضعیف ہے ،لہذا ان سنتوں کی مذکورہ ترتیب ضروری نہیں۔

اگر کوئی شخص ظہر کی  پہلی چار یا دوسنتیں نماز ظہر کے بعد(کسی وجہ سے) نہ پڑھ سکے تو بھی((لِمَنْ شَاءَ))والی حدیث کی رُو سے جائز ہے۔واللہ اعلم۔(18/اگست 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نماز سے متعلق مسائل-صفحہ114

محدث فتویٰ

تبصرے