سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) نماز تراویح کے بعض مسائل اور طریقہ وتر

  • 21282
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1943

سوال

(29) نماز تراویح کے بعض مسائل اور طریقہ وتر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

انگلینڈ کی اہل حدیث مساجد میں رمضان المبارک میں یہ معمول ہے کہ :

1۔بعض لوگ امام کے ساتھ تراویح کی نماز ادا کر تے ہیں اور وتر چھوڑ دیتے ہیں۔

2۔اور بعض لوگ امام کے ساتھ وتر ادا کرکے امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت علیحدہ سے ادا کرتے ہیں۔

3۔اور بعض لوگ امام کے ساتھ صرف فرض ادا کرتے ہیں اور یہ لوگ رات کے آخری حصے میں چار رکعت یا آٹھ رکعت امام کے ساتھ ادا کرکے آخر میں وتر پڑھتے ہیں اور یہ نماز باقی نمازوں کی نسبت قدرے لمبی ہوتی ہے اور اس نماز کو یہ لوگ قیام کانام دیتے ہیں۔

آیا یہ قیام کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں تھا؟

کیا یہ جائز،ناجائز بات ہے یا افضل،غیر افضل کا مسئلہ ہے؟

بعض لوگ اس کے جائز ہونے کے لیے سعودی علماء اور(انگلینڈ کے)مقامی علماء کے حوالے دیتے ہیں۔براہ مہربانی اس مسئلہ کی وضاحت قرآن وحدیث کی روشنی میں مع حوالہ جات  تحریر فرمائیں اور اس کے علاوہ تین رکعت وتر پڑھنے کا صحیح  طریقہ بھی بیان فرمادیں۔(محمد فیاض دامانوی ،بریڈ فورڈ ،انگلینڈ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوال کی تینوں شقوں کا جواب درج ذیل ہے:

1۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا "

"رات کواپنی آخری نماز وتر بناؤ"

(صحیح بخاری،کتاب الوتر باب لیجعل آخر صلاتہ وتراح998)

اس مفہوم کی مؤید دوسری روایات بھی ہیں اور غالباً یہ لوگ ان سے استدلال کرتے ہیں،یعنی رات کے بالکل آخری حصے میں اذان فجر سے پہلے یہ نماز وتر پڑھتے ہوں گے۔واللہ اعلم

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آیا ہے:"جس شخص کو یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں سویارہ جائے گا تو وہ شروع میں ہی وتر پڑھ لے اور جسے یہ امید ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں اٹھ جائے گا تو اسے آخری حصے میں وتر پڑھنا چاہیے اور رات کی آخری نماز میں(فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے اور یہ افضل ہے۔"(ح755،ترقیم دارالسلام :1766)

ایک ہی رات میں وتر پر وتر پڑھنے کو نقضِ وتر کا مسئلہ کہا جاتا ہے ،یعنی یہ لوگ دوبارہ وتر پڑھتے ہیں اور اپنے خیال اس عمل سے  پہلے وترکو توڑدیتے ہیں اور ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ رات کے آخری حصے میں(تیسری بار) وتر پڑھتے ہوں گے۔واللہ اعلم

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ ثابت ہے کہ وہ اگر ایک وتر پڑھ لیتے اور پھر قیام لیل کرنا چاہتے تو  دوبارہ ایک وتر پڑھ کر سابقہ وترکو جفت بنادیتے،پھر قیام لیل فرماتے اور آخر میں(تیسری بار) وتر پڑھتے تھے۔

(مثلاً دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/282ح6726 وسندہ صحیح السنن الکبریٰ للبیہقی 3/36ح4845وسندہ حسن)

نیز اس مسئلے پرسیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کااپنا عمل واجتہاد بھی تھا۔(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/284 ح6725 وسندہ صحیح)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نقضِ وترکے بارے میں فرمایا:میں یہ کام،اپنی رائے سے کرتا ہوں،میں اسے کسی سے روایت نہیں کرتا۔(مسند علی بن الجعد :437 وسندہ صحیح دوسرا نسخہ :450)

یہی مسئلہ سیدنا علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی  ثابت ہے۔(دیکھئے الاوسط لابن المنذر 5/197 ح2671 وسندہ حسن 5/196ح2667وسندہ حسن)

یہ مسئلہ امام عروہ بن الزبیر  رحمۃ اللہ علیہ  اور امام مکحول  رحمۃ اللہ علیہ  وغیر ہما سے بھی ثابت ہے۔(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/282 ح6729،6732)

لیکن ان آثار کے مقابلے میں صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:(لا وتران في ليلة) "ایک رات میں دو دفعہ وتر نہیں"سنن ابی داود:1439 وسندہ صحیح)

اس حدیث کے راوی سیدنا طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی صرف ایک دفعہ وتر پڑھنے کے قائل تھے۔(دیکھئے سنن ابی داود :1439 وحسنہ الترمذی:470 وصححہ ابن خذیمہ:1101 وابن حبان:671)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے(ایک قول میں) فرمایا:جب تم پہلی رات میں وتر پڑھ لو تو آخری حصہ میں(دوبارہ) وتر نہ پڑھو۔(مصنف ابن ابی شیبہ 2/284 وسندہ حسن)

امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  نقضِ وتر کے قائل نہیں تھے۔(دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/285 ح6744وسندہ صحیح)

امام سعید بن المسیب  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"وَلَا يَنْقُضُ وِتْرَهُ"اور نقضِ وتر نہیں کرنا چاہیے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی 3/36 وسندہ حسن)

خلاصۃ التحقیق:۔

اس مسئلے میں راجح بات یہ ہے کہ ایک دفعہ وتر پڑھ لینے کے بعد دوبارہ وتر نہ پڑھاجائے اور اگر کوئی شخص وتر پڑھنے کے بعد بھی آخری رات میں نفل نماز پڑھنا چاہتا ہے تو  صرف دو رکعتیں پڑھ لے اور بہتر یہ ہے کہ یہ دو رکعتیں بھی نہ پڑھے بلکہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہے۔نیز یہ بھی یادرہے کہ اگر کوئی شخص وتر کے بعد بھی نوافل پڑھنا چاہتا ہے تو یہ حرام نہیں،لیکن بہتر یہ ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کرتے ہوئے رات کی آخری نماز صرف وتر کوبنایا جائے۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ(رمضان کے) روزے رکھے،پھر آپ نے ہمیں (تراویح کی) نماز نہیں پڑھائی حتیٰ کہ جب(رمضان کے) مہینے کی سات راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمیں ایک تہائی رات تک(قیام رمضان کی) نماز پڑھائی ،پھر چھٹی رات کوئی قیام نہیں فرمایا اور پانچویں رات آدھی رات تک قیام فرمایا۔پس ہم نے آپ سے کہا:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرآپ آج کی باقی رات بھی ہمیں نماز پڑھادیتے تو؟

آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا:

"مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ "

"جس شخص نے امام کے ساتھ قیام کیا ،حتیٰ کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا تو اس شخص کے لیے ساری رات کا قیام(یعنی ثواب) لکھا جاتا ہے۔"(سنن ترمذی :806 وقال:"حسن صحیح" وسندہ صحیح)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ امام کے ساتھ( مکمل) تراویح(مع وتر) پڑھنے والے کو ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تراویح کی انفرادی نماز سے،امام کے ساتھ نماز تراویح  پڑھنا افضل ہے۔

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"میں اسے پسند کرتاہوں کہ امام کے ساتھ نماز(تراویح) اور وتر پڑھے جائیں۔"

پھر انھوں نے حدیث مذکور( ہی) سے استدلال کیا۔(مسائل ابی داود ص 62 باب التراویح)

اور اسی پر امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  کاعمل تھا۔رحمۃاللہ واسعۃ۔

ثابت ہواکہ مذکور لوگوں کاعمل مرجوح ہے۔واللہ اعلم۔

2۔اسے نقض الوتر کہا جاتا ہے اور اس کا مفصل ذکر جواب کی شق نمبر1 کے تحت گزرچکاہے۔راقم الحروف کے نزدیک یہ عمل مرجوح ہے اور بہتر وہی ہے جو میں نے نمر1 کے تحت بیان کردیاہے۔واللہ اعلم

3۔یہ عمل صراحت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں،لیکن ظاہر یہی ہے کہ یہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے قول کو پیش نظر رکھ کر یہ اجتہاد کرتے ہیں۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول صحیح بخاری میں موجود ہے۔(کتاب الصلوٰۃ التراویح باب فضل من قام رمضان ح2010ء)

سنن ترمذی وغیرہ کی مرفوع صحیح حدیث( جسے شق نمبر1 کے تحت بیان کردیا گیا ہے)

سے یہی ظاہر ہے کہ اول شب ہی امام کے ساتھ مکمل قیام مع وتر کرلیا جائے اور یہی افضل، بہتروراجح ہے۔

یہ اختلاف جائز ناجائز کااختلاف نہیں بلکہ افضل وغیر افضل کا اور راجح ومرجوح کا اختلاف ہے جس میں ہر صحیح العقیدہ فریق کو حسبِ اجتہاد ثواب ملے گا۔ان شاء اللہ

سعودی عرب( یعنی جزیرۃ العرب) کے علماء ہوں یا مقامی وغیر مقامی علماء ہوں،سب کو چاہیے کہ سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں قرآن وحدیث اور اجماع سے استدلال کریں اور فریق مخالف کو بھی اپنی دلیل بیان کرنے اور اپنی تحقیق پر عمل کرنے کا موقع دیں۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى"

"اے(ساری دنیا کے) لوگو! سن لو کہ یقیناً تمہارا رب ایک ہے اور یقیناً تمہارا باپ ایک ہے۔(یعنی سیدنا آدم علیہ السلام )

سن لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت ہے۔کسی سرخ کو کسی کالے پر فضیلت نہیں اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر فضیلت ہے ،سوائے تقویٰ کے ذریعے سے۔"(مسند احمد 5/411 ح23489وسندہ صحیح)

فضیلت تو ایمان ،اعمال صالحہ ،علم اور تقویٰ میں ہے۔

تین رکعت وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ

اب تین رکعت وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ پیش خدمت ہے:

1۔دو رکعت پڑھ کر( تشہد،درود اور دعا کے بعد) دونوں طرف سلام پھیر دیاجائے اور بعد میں دوسری تکبیر تحریمہ(اللہ اکبر) کے ساتھ ایک رکعت وترپڑھا جائے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  (وتر کی) جفت(دو) اور وتر( ایک) رکعت کو سلام کے ساتھ جدا(علیحدہ) کرتے تھے اور یہ سلام ہمیں سناتے تھے۔(صحیح ابن حبان الاحسان 4/70 ح2426 وسندہ صحیح)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  خود بھی اسی طرح وتر پڑھتے تھے۔(دیکھئے صحیح البخاری:601)

صحیح مسلم کی حدیث: "يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة"آپ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور(آخر میں) ایک وتر پڑھتے تھے۔(1/254 ح736) کے عموم سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ دورکعتوں پر سلام پھیر دیاجائے اور آخرمیں ایک وترپڑھاجائے۔

تین وتر کا یہ طریقہ سب سے افضل اور راجح ہے۔

2۔اگر دوسری رکعت پر سلام نہ پھیرا جائے اور تین وتر  اکھٹے پڑھے جائیں تو یہ عمل بھی جائزہے،بشرط یہ کہ دوسری رکعت میں مغرب کی طرح تشہد کے لیے نہ بیٹھا جائے۔

ایک سلام سے تین وتر کے جواز کی دلیل وہ روایت ہے ،جس میں آیا ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (خلیفہ راشد) نے ایک سلام سے تین وتر پڑھائے۔(شرح معانی الآثار لطحاوی 1/293 وسندہ حسن وصحیحہ النیموی فی آثار السنن:618 نیز دیکھئے میری کتاب ہدیۃ المسلمین ص 65 ح27)

مشہور ثقہ تابعی عطاء بن ابی رباح  رحمۃ اللہ علیہ  تین وتر پڑھتے تو ان میں بیٹھتے نہیں تھے اور صرف آخری رکعت میں تشہد پڑھتے تھے۔

(المستدرک للحاکم1/305 وسندہ حسن واخفا النیموی فضعفہ المستدرک المخطوط ج1ص 145ب)

المستدرک عل الصحیحین کے مولف ابوعبداللہ الحاکم النیسابوری  رحمۃ اللہ علیہ  نےفرمایا:

"عائشة رضى الله عنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يقعد إلا في آخرهن ، وهذا وتر أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضى الله عنه وعنه أخذه أهل المدينة"

"عائشہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  تین وتر پڑھتے تھے،آپ ان میں صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے اور یہی وتر امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ہے اور انھی سے اہل مدینہ نے لیا ہے۔(المستدرک المخطوط 1ص 145ب)

یہی روایت اسی سند ومتن کے ساتھ"الا فی آخرھن"تک ابوعبداللہ الحافظ الحاکم النیسابوری کے شاگرد حافظ ابوبکر احمد بن الحسین بن علی البیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی بیان کررکھی ہے۔(دیکھئے السنن الکبریٰ ج3 ص28 ح4803 باب من اوتر بخمس اوثلاث لا یجلس ولا یسلم الا فی الآخرۃ منھن)

اب اس روایت کے رایوں کا مختصر وجامع تعارف پیش خدمت ہے:

1۔ابونصر احمد بن سہل الفقیہ البخاری  رحمۃ اللہ علیہ

ان کے بارے میں حافظ ابویعلی خلیل بن عبداللہ بن احمد بن خلیل الخلیلی القزوینی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 446ھ) نے فرمایا:"ثقۃ متفق علیہ"

اور فرمایا:ہمیں حاکم ابوعبداللہ نے ان سے حدیث بیان کی اور انھوں نے ان کی تعریف بیان کی۔(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث 3/974ت903)

حاکم رحمۃ اللہ علیہ  اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  دونوں نے ان کی بیان کردہ حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کی شرط پرصحیح کہا۔(المستدرک والتلخیص 1/442 ح1614)

2۔ابوعلی صالح بن محمد بن(عمروبن) حبیب الحافظ البغدادی البخاری :جزرہ  رحمۃ اللہ علیہ

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"كان ثقة صدوقاًوقال: كان حافظاً عارفاً"

(المؤتلف والمختلف 2/750)

نیزدیکھئے تاریخ بغداد(9/324)تاریخ دمشق لابن عساکر اور سیر اعلام النبلاء(14/23)

3۔ابومحمد شیبان بن فروخ ابی شیبہ الحبطی الابلی  رحمۃ اللہ علیہ

آپ صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کےنزدیک حدیث میں ثقہ وصدوق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث ہیں۔

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے نام کے ساتھ"صح" کی علامت لکھ کر فرمایا:"احد الثقات" (میزان الاعتدال 2/285ت3759)

جس راوی کے ساتھ حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ "صح"کی علامت لکھیں توان کے نزدیک اس راوی پر جرح مردود ہوتی ہے اور راوی کی توثیق پر عمل ہوتا ہے۔

(دیکھئے لسان المیزان 2/159 دوسرا نسخہ 3/289 تحقیقی مقالات3/182۔183)

4۔ابویزید ابان بن یزید العطار البصری  رحمۃ اللہ علیہ

آپ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:" ثقة له افراد"(تقریب التہذیب :143)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"حافظ صدوق امام۔۔۔بل ھو ثقۃ حجۃ"(میزان الاعتدال1/16ت20)

ان کے ساتھ بھی  حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے "صح" کی علامت لکھ رکھی ہے۔

5۔قتادہ بن دعامہ البصری  رحمۃ اللہ علیہ

آپ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے بنیادی راوی اور ثقہ مدلس تھے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"ثقۃ ثبت"(تقریب التہذیب:5518)

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کے ساتھ"صح" کی علامت لکھی اور فرمایا:

"حافظ ثقة ثبت، لكنه مدلس: ورمي بالقدر....."

(میزان الاعتدال 3/385ت6864)

روایت مذکور میں قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  کے سماع کی تصریح نہیں ملی،لیکن حنفی اُصول پر یہ روایت صحیح ہے۔

ملاجیون(حنفی) نے لکھا ہے:"حتي لا يقبل الطعن بالتدليس"حتی کہ تدلیس کا طعن قابل قبول نہیں۔(نورالانوار ص 192 درسی نسخہ مکتبۃ البشریٰ والا نسخہ 1/548)

ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے:

اور قرون ثلاثہ میں ہمارے نزدیک تدلیس اورارسال مضر نہیں۔

(اعلاء السنن 1/313 دوسرا نسخہ 1/436 ح431 الکواکب الدریہ ص47)

ظفر احمد تھانوی  نے مزید  لکھا ہے:میں نے کہا:اور اگر مدلس قرون ثلاثہ کے ثقہ  لوگوں میں سے ہوتو اس کی تدلیس بھی اسی طرح مقبول ہوتی ہے جس طرح اس کی مرسل روایت مقبول ہوتی ہے۔(قواعد فی علوم الحدیث ص159)

ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھاہے:

"حالانکہ اسے معلوم ہے کہ احناف کے ہاں تو خیر القرون کی جہالت وتدلیس جرح ہی نہیں اور شوافع کے ہاں متابعت سے یہ جرح ختم ہوگئی۔۔۔"(تجلیات صفدر ج3/324)

احمد یار نعیمی بدایونی بریلوی نے لکھا ہے:"ایک چیز کو بعض عیب سمجھتے ہیں۔بعض نہیں۔دیکھو تدلیس۔ارسال۔گھوڑے دوڑانا۔مذاق۔نوعمری۔فقہ میں مشغولیت کو بعض لوگوں نے  راوی کا عیب جانا ہے۔مگرحنفیوں کے نزدیک ان میں سے کچھ بھی عیب نہیں۔(نور الانوار بحث طعن علی الحدیث)"(جاء الحق حصہ دوم ص7 قاعدہ نمبر7)

ثابت ہوا کہ حنفیہ ودیوبندیہ اور بریلویہ کے اصول سے قتادہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی یہ روایت صحیح ہے۔

اہل حدیث کے نزدیک اس روایت کے معنوی اور آثار سلف صالحین سے شواہد موجود ہیں ،جیسا کہ آگے آرہاہے۔ان شاء اللہ

6۔قاضی ابو حاجب زرارہ بن اوفیٰ العامری البصری  رحمۃ اللہ علیہ

آپ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے راوی تھے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"ثقہ عابد"(تقریب التہذیب :2009)

7۔سعد بن ہشام بن عامر الانصاری المدنی  رحمۃ اللہ علیہ

آپ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے  راوی تھے اور مکران کے علاقے میں شہید ہوئے۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے  فرمایا:"ثقہ"(تقریب التہذیب :2258)

8۔ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 

آپ نے دیکھ لیا کہ مستدرک والی روایت کے سارے راوی ثقہ وصدوق ہیں اور صرف تدلیس کا اعتراض ہے ،چنانچہ اہل حدیث کے نزدیک یہ سند ضعیف ہے لیکن حنفیوں ،دیوبندیوں اور بریلویوں تینوں کے نزدیک یہ حدیث اور اس کی سند بالکل صحیح ہے۔

مستدرک کی اس روایت کا ایک شاہدہ درج ذیل ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لا توتروا بثلاث وأوتروا بخمس أو سبع ، ولا تشبهوا الوتر بصلاة المغرب"

"تین وتر نہ پڑھو،پانچ یا سات پڑھو اور مغرب کی نماز سے مشابہت نہ کرو۔"(صحیح ابن حبان، الاحسان 4/17 ح2420 وسندہ صحیح و صححہ الحاکم فی المستدرک 1/304 ح1137۔1138 ووافقہ الذہبی)

اس روایت کی مفصل تحقیق کے لیے دیکھئے میری کتاب :"تحقیقی مقالات"

(ج4ص 134۔136) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کی تشریح میں فرمایاہے:

اس اور نماز مغرب کے ساتھ تشبیہ سے سابقہ ممانعت کے درمیان جمع وتوفیق یہ ہے کہ تین سے ممانعت کودو  تشہدوں(والی تین رکعتوں) پر محمول کیا جائے۔(فتح الباری 3/481)

نیز دیکھئے حنابلہ کی کتاب:الشرح الممتع علی زادالمستنقع(2/12)

اس کا دوسرا شاہد اسی مضمون کے شروع میں بحوالہ المستدرک امام عطاء بن ابی رباح   رحمۃ اللہ علیہ  کے عمل سے گزرچکاہے۔

دیوبندیہ وبریلویہ جس طریقے سے تین وتر پڑھتے ہیں،اس کا کوئی ثبوت ہمارے علم کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  یاکسی صحابی سے باسند صحیح وحسن لذاتہ موجود نہیں۔

آخر میں بطور تنبیہ عرض ہے کہ صرف ایک وتر پڑھنا بھی جائز ہے۔

(دیکھئے سنن ابی داود :1422 سنن نسائی :1712،اور ہدیۃ المسلمین ص 62ح26) (14فروری 2012ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔نماز سے متعلق مسائل-صفحہ103

محدث فتویٰ

تبصرے