السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ہمارے دین اسلام کی تعلیمات کا اصل ماخذ قرآن ،سنت اور اجماع ہے؟(محمد نعیم،نیو خانپور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جی ہاں! دین اسلام کے اصل ماخذ تین ہیں:
1۔کتاب اللہ یعنی قرآن مجید
2۔سنت یعنی حدیث
3۔اجماع اُمت
(دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو جلد 1عدد:1ص 4)
ایک حدیث میں لزوم جماعت کا ذکر بھی آیا ہے۔(مسند احمد 5/183ح21590وسندہ صحیح الحدیث حضرو :74 ص5)
لزوم جماعت کی تشریح میں امام ابوعبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 204ھ) نے فرمایا:
"وأمْرُ رسول الله بلزوم جماعة المسلمين مما يُحتج به في أن إجماع المسلمين - إن شاءالله لازم"
"اور رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم:لزوم جماعت المسلمین سے حجت پکڑی جاتی ہے کہ ان شاء اللہ مسلمانوں کااجماع لازم (یعنی حجت) ہے۔(کتاب الرسالہ ص 403 فقرہ:1105)
نیز دیکھئے صحیح ابن حبان(الاحسان :6205 دوسرا نسخہ:6233)
ایک حدث میں آیاہے:
"لَا يَجْمَعُ اللَّهُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ أَبَدًا، وَيَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ"
"اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اوراللہ کاہاتھ جماعت (اجماع)پرہے۔(المستدرک ج 1ص116 ح399 عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وسندہ صحیح)
حاکم نیشاپوری نے اس حدیث سے اجماع کاحجت ہونا ثابت کیا ہے۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَنْ تَجْتَمِعَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّ يَدَ اللهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ"
"میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ،لہذا تم جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ اللہ کاہاتھ جماعت پرہے ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج12ص 447 ح13623وسندہ حسن)
اجماع اتفاق کو کہتے ہیں۔
دیکھئے تاج العروس(ج11 ص 75) القاموس المیحط(ص917)المعجم الوسیط (1/135)اور القاموس الوحید(ص 280)وغیرہ۔
امام ابوحاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 277ھ) نے فرمایا:
"واتفاق أهل الحديث على شيء يكون حجة"
"اور اہل حدیث کاکسی چیز پر اتفاق کرلینا حجت ہوتاہے"(کتاب المراسیل ص 192)
امام ابوعبید القاسم بن سلام رحمۃ اللہ علیہ نے آدھے یا چوتھائی سر کے مسح کی توقیت(تعین وحدبندی) کے بارے میں فرمایا:"یہ جائز نہیں ہے الا یہ کہ اس کا علم کتاب،سنت یااجماع میں ہو۔(کتاب الطھور ص 124تحت ح334)
معلوم ہوا کہ امام ابوعبید اجماع کو حجت سمجھتے تھے۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
اجماع کا معنی یہ ہے کہ احکام میں سے کسی حکم پر مسلمانوں کے علماء جمع ہوجائیں اور جب کسی حکم پر اُمت کا اجماع ثابت ہوجائے تو کسی کےلیے جائزنہیں کہ وہ علماء کے اجماع سے باہرنکلے کیونکہ اُمت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی،لیکن بہت سے مسائل میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجماع ہے،حالانکہ ان میں اجماع نہیں ہوتا بلکہ(اس کے مخالف) دوسرا قول کتاب وسنت میں زیادہ راجح ہوتا ہے۔(مجموع فتاویٰ ج20 ص10)
امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 181ھ) نے فرمایا:
"اجماع الناس علي شئي اوثق في نفسي من سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ"
"لوگوں کا کسی چیز پر اجماع میرے نزدیک سفیان(الثوری) عن منصور(بن المعتمر) عن ابراہیم(النخعی) عن عقلمہ(بن قیس) عن عبداللہ بن مسعود( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔(الکفایہ للخطیب ص 434 وسندہ حسن)
معلوم ہوا کہ امام عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اجماع کو زبردست حجت سمجھتے تھے۔حافظ محمد عبداللہ غازیپوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1337ھ) ایک مشہور اہل حدیث عالم نے بھی اجماع اُمت کاحجت ہونا تسلیم کیا ہے۔
دیکھئے ابراء اہل الحدیث والقرآن(ص32) اور الحدیث حضرو:1ص4)
یاد رہے کہ کتاب وسنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین اور علمائے اہل سنت سے بلااختلاف ثابت ہے اور ادلہ ثلاثہ کی غیر موجودگی میں اجتہاد(مثلاً آثار سلف صالحین سے استدلال وغیرہ) جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب