سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(8) جھوٹی قسم کا کفارہ

  • 21261
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2114

سوال

(8) جھوٹی قسم کا کفارہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھالی ،بعد میں احساس ہوا تو اس کا کیا کفارہ ہوگا؟(ایک سائلہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے عرض ہے کہ جھوٹی قسم کھانا حرام ہے جیسا کہ صحیح بخاری (2416۔2417) اور صحیح مسلم(138)وغیرھما کی احادیث سے ثابت ہے اور غلط کام کی قسم کھالینا بھی ناجائز ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ"

"جس شخص نے اللہ کی اطاعت کرنے کی نذر مانی ہوتو وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانی ہوتو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔"(موطا امام مالک بتحقیقی روایۃ ابن القاسم ص281 ح188 صحیح بخاری 6696)

اب رہا یہ سوال کہ جھوٹی اور نافرمانی والی قسم کھانے والے پر کوئی کفارہ ہے یا نہیں؟

تو اس بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں:

1۔کفارہ نہیں ہے۔

2۔کفارہ ہے۔

اور ہماری تحقیق میں یہی دوسرا قول راجح ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ»"

"نافرمانی میں کوئی نذر نہیں اور اس(نافرمانی والی نذر) کا وہی کفارہ ہے جو قسم کا کفارہ ہے"(سنن نسائی کتاب الایمان والنذر وکفارۃ النذر 7/27 ح3869 وسندہ صحیح)

امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث پر:

"باب من رأى عليه كفارة إذا كان في معصية"

جو شخص یہ سمجھتاہے کہ اس پر کفارہ ہے،اگر(قسم) نافرمانی(گناہ) میں(بھی) ہو۔کا باب باندھا ہے۔(قبل ح3290)

ایک عورت نے آکر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے کو  ذبح کرنے کی نذر مانی ہے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اپنے بیتے کو ذبح نہ کرنا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔الخ(موطا امام مالک روایۃ یحییٰ 2/476 ح1048 وسندہ صحیح الاتحاف الباسم ص281)

ثابت ہوا کہ غلط اور جھوٹی قسم پر عمل کرنا حرام ہے،لیکن اس قسم کا کفارہ دینا پڑے گا،اور امام ابوعبداللہ محمد بن ادریس الشافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

"ومن حلف عامدا للكذب فقال والله لقد كان كذا، وكذا ولم يكن، أو والله ما كان كذا، وقد كان كفر، وقد أثم وأساء حيث عمد الحلف بالله باطلا فإن قال وما الحجة في أن يكفر، وقد عمد الباطل؟ قيل أقر بها قول النبي صلي الله عليه وسلم: (فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه) فقد أمره أن يعمد الحنث"

"جس شخص نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی(مثلاً) کہا:اللہ کی قسم! اس طرح اس طرح ہوا ہے اور اس طرح ہوا نہیں تھا یا اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہوا اور(حالانکہ) ایسا ہوا تھا ،وہ کفارہ دے گا اور اس نے گناہ کیا اور باطل بات پر اللہ کی قسم کھا کر بُرا کام کیا۔اگر کہا جائے کہ باطل کے ارادے پر(جھوٹی قسم کے) کفارے کی دلیل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث:"پس اچھی بات پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی قسم کا کفارہ دینا چاہیے ،"اس کی اقرب ترین دلیل ہے کیونکہ آپ نے اسے قسم توڑنے کا حکم دیا ہے۔(کتاب الام ج7 ص 61السنن الکبری للبیہقی ج10 ص36)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی بیان کردہ حدیث صحیح بخاری(6623) اور صحیح مسلم(1649،1652) وغیرھما میں مختلف الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔

خلاصۃ الجواب یہ ہے کہ ایسی حالت میں قسم  توڑنا ضروری ہے اور اس کا کاکفارہ ادا کرنا پڑے گا جو دس مسکینوں کو(عام) کھانا کھلانا ،یا کپڑے پہنانا ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو پھر تین روزے رکھنا ضروری ہیں۔(دیکھئے سورۃ المائدہ:89)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔توحید و سنت کے مسائل-صفحہ30

محدث فتویٰ

تبصرے