السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عرض ہے کہ "جماعت المسلمین" (رجسٹرڈ) بخاری ومسلم کی اس(آنے والی) حدیث کو اپنے حق میں پیش فرماتے ہیں جبکہ ہمیں ان کے اس فہم واستفادہ سے ،اس طرح کے استدلال سے اختلاف ہے۔براہ مہربانی خیر القرون کے فہم واستفادہ سے مستفیض فرمائیں۔
زیرتحت باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ میں حدیث نمبر1968.....
"قال تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ فقلت فَإِنْ لم تَكُنْ لهم جَمَاعَةٌ ولا إِمَامٌ قال اعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ على أَصْلِ شَجَرَةٍ حتى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ على ذلك" (ج3ص 779)
صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ :
"بَاب وُجُوبِ مُلَازَمَةِ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وَفِي كُلِّ حَالٍ"(ج5ص 137)
محترم اس تناظر میں قرون ثلاثہ کے حوالے سے مکمل راہنمائی فرمائیں کہ"جماعت المسلمین"(رجسٹرڈ) اس بنیاد پر:
1۔سب لوگوں کو گمراہ اور اپنے آپ کو ملاصحیح سمجھتے ہیں۔
2۔اپنی کئی کتب مثلاً(1) دعوت اسلام(ص 47۔48) میں 34 مذہبی جماعتوں(2) دعوت فکر ونظر(ص 49) میں 33 مذہبی جماعتوں اور لمحہ فکریہ(ص 42) وغیرہ میں 33 مذہبی جماعتوں کے نام گنوائے ہیں جن میں یہ تاثردینے کی کوشش کی ہے کہ یہ(جماعتیں) چونکہ"جماعت المسلمین"(رجسٹرڈ سے) وابستہ نہیں ،لہذا گمراہ ہیں۔
3۔سیاسی جماعتوں کا اس(میں) مطلق ذکر نہ (ہونا) بھی کسی خطرے سے خالی نہیں۔
براہ کرم اپنے قیمتی لمحات میں سے کچھ وقت خصوصی راہنمائی کے لیے ضرور وقف فرمائیں۔(طالب اصلاح وخیر:طارق محمود ،سعیدآٹوز دینہ جہلم)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن اور صحیح حدیث حجت ہے اور قرآن وحدیث سے اجماع امت کا حجت ہونا ثابت ہے لہذا شرعیہ تین ہیں:
1۔قرآن مجید
2۔احادیث صحیحہ وحسنہ لذاتہا مرفوعہ
3۔اجماع اُمت
سبیل المومنین والی آیت کریمہ اور دیگر دلائل سے درج ذیل دو اہم اصول بھی ثابت ہیں:
1۔کتاب وسنت کا صرف وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین(مثلاً صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ،تابعین رحمۃ اللہ علیہ ،تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ محدثین رحمۃ اللہ علیہ ،علمائے دین اور صحیح العقیدہ شارحین حدیث) سے متفقہ یا بغیر اختلاف کے ثابت ہے۔
3۔اجتہاد ،مثلاً آثار سلف صالحین سے استدلال۔
اس تمہید کے بعد سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ حدیث:
"تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ"
"مسلمانوں کی جماعت اور اُن کے امام کو لازم پکڑ لو،کی تشریح میں عرض ہے کہ جماعت المسلمین سے مراد خلافت المسلمین اور إِمَامَهُمْ سے مراد خليفتهم (یعنی خلیفہ) ہے۔اس تشریح کی دو دلیلیں درج ذیل ہیں:
1۔(سبیع بن خالد) الیشکری رحمۃ اللہ علیہ (ثقہ تابعی) کی سند سے روایت ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"فَإِنْ لَمْ تَجِدْ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةً فَاهْرُبْ حَتَّى تَمُوتَ....."
"پھر اگر تم ان ایام میں کوئی خلیفہ نہ پاؤ تو بھاگ جاؤحتیٰ کہ مرجاؤ"
(سنن ابی داود:4247وسندہ حسن مسند ابی عوانہ 4204ح7168شاملہ)
اس حدیث کے راویوں کی مختصر توثیق درج زیل ہے:
1۔سبیع بن خالد الیشکری رحمۃ اللہ علیہ :
انھیں ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ،امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ ،حاکم رحمۃ اللہ علیہ ،ابوعوانہ رحمۃ اللہ علیہ ،اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ثقہ وصحیح الحدیث قرار دیا ہے،لہذا اس زبردست توثیق کے بعد انھیں مجہول یامستور کہنا غلط ہے۔
2۔صحر بن بدر العجلی رحمۃ اللہ علیہ :۔
انھیں ابن حبان اور ابوعوانہ نے ثقہ وصحیح الحدیث قراردیاہے،اس توثیق کے بعد شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا انھیں مجہول قراردینا غلط ہے۔
3۔ابوالتیاح یزید بن حمید رحمۃ اللہ علیہ :۔
صحیحین وسنن اربعہ کے راوی اور ثقہ ثبت تھے۔
4۔عبدالوارث بن سعید رحمۃ اللہ علیہ :۔
صحیحین وسنن اربعہ کے راوی اور ثقہ ثبت تھے۔
5۔مسدد بن مسر ہدر رحمۃ اللہ علیہ :۔
صحیح بخاری وغیرہ کے راوی اور ثقہ حافظ تھے۔
ثابت ہوا کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ( ثقہ مدلس) کی عن نصر بن عاصم عن سبیع بن خالد والی روایت صحر بن بدر کی حدیث کا شاہد ہے جو کہ مسعود احمد بی ایس سی کے"اصولِ حدیث" کی رو سے سبیع بن خالد رحمۃ اللہ علیہ تک صحیح ہے۔(دیکھئے سنن ابی داود:4244 وصححہ الحاکم 4/432۔433 ووافقہ الذہبی)
اس حسن روایت سے ثابت ہوا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں امام سے مراد خلیفہ ہے یاد رہے کہ حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے۔
2۔حافظ ابن حجرل العسقلانی نے"تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ" کی تشریح میں فرمایا:
"قَالَ الْبَيْضَاوِيُّ : الْمَعْنَى إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ فَعَلَيْكَ بِالْعُزْلَةِ وَالصَّبْرِ عَلَى تَحَمُّلِ شِدَّةِ الزَّمَانِ ، وَعَضُّ أَصْلِ الشَّجَرَةِ كِنَايَةٌ عَنْ مُكَابَدَةِ الْمَشَقَّةِ"
"(قاضی)بیضاوی(متوفی 685ھ) نے فرمایا:اس کامعنی یہ ہے کہ اگرزمین میں خلیفہ نہ ہوتوتم(سب سے) علیحدہ ہوجانا اور زمانے کی سختیوں پر صبر کرنا۔درخت کی جڑ چبانے کے اشارے سے مراد مصیبتیں برداشت کرنا ہے۔(فتح الباری 13،36 ونسخہ اخری 16 /487)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی310ھ) سے نقل کیا کہ:
"قال الطبري : والصواب أن المراد من الخبر لزوم الجماعة الذين في طاعة من اجتمعوا على تأميره ، فمن نكث بيعته خرج عن الجماعة ، قال : وفي الحديث أنه متى لم يكن للناس إمام فافترق الناس أحزابا فلا يتبع أحدا في الفرقة ويعتزل الجميع إن استطاع ذلك"
"اور صحیح یہ ہے کہ(اس) حدیث سے مراد اس جماعت کو لازم پکرنا ہے جو اس(امام) کی امارت پر جمع ہوتے ہیں،پس جس نے اپنی بیعت توڑ دی وہ جماعت سے خارج ہوگیا۔فرمایا:اور حدیث میں(یہ بھی) ہے کہ اگر لوگوں کا امام(امیر بالاجماع) نہ ہو اور لوگوں نے پارٹیاں بنا رکھی ہوں تو دور اختلاف میں کسی ایک کی اتباع نہ کرے اور اگر طاقت ہوتوتمام(پارٹیوں) سے علیحدہ رہے۔(فتح الباری 3613 ونسخہ اخری 16/487)
شارح صحیح البخاری علامہ علی بن خلف بن عبدالملک ابن بطال القرطبی(متوفی 449ھ) نے فرمایا:
"وَقَالَ اِبْن بَطَّال: فِيهِ حُجَّة لِجَمَاعَةِ الْفُقَهَاء فِي وُجُوب لُزُوم جَمَاعَة الْمُسْلِمِينَ وَتَرْك الْخُرُوج عَلَى أَئِمَّة الْجَوْر"
"اور اس(حدیث) میں جماعت فقہاء کی دلیل یہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا چاہیے اور ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج نہیں کرنا چاہیے۔(شرح صحیح بخاری لابن بطال 10/36)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے ایک ٹکڑے کی تشریح میں فرمایا:
"وهو كناية عن لزوم جماعة المسلمين وطاعة سلاطينهم ولو عصوا"
اور یہ اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کو لازمی پکڑا جائے اور مسلمانوں کے سلاطین (حکمرانوں) کی اطاعت کی جائے اگرچہ وہ نافرمانیاں کریں۔(فتح الباری 13/36)
شارحین حدیث( ابن جریر طبری،قاضی بیضاوی ،ابن بطال اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ) کی ان تشریحات (فہم سلف صالحین) سے ثابت ہوا کہ حدیث مذکور(("تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ))سے مروجہ جماعتیں اور پارٹیاں(مثلاً مسعود احمد بی ایس سی کی جماعت المسلمین رجسٹرڈ) مراد نہیں بلکہ مسلمین(مسلمانوں) کی متفقہ خلافت اور اجماعی خلیفہ مراد ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ :
"من مات وليس له إمام مات ميتةً جاهلية".
"جوشخص فوت ہوجائے اور اس کا امام (خلیفہ) نہ ہوتووہ جاہلیت کی موت مرتا ہے ۔"
(صحیح ابن حبان 10/434 ح457 وھو حدیث حسن)
اس حدیث کی تشریح میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا:کیا تجھے پتا ہے کہ(اس حدیث میں) امام کسے کہتے ہیں؟(امام اسے کہتے ہیں) جس پر تمام مسلمانوں کا ا جماع ہوجائے(اور) ہر آدمی یہی کہے کہ یہ امام(خلیفہ) ہے۔پس اس حدیث کا یہ معنی ہے۔(سوالات ابن ہانی :2011 تحقیقی مقالات 4031)
اس تشریح سے بھی یہی ثابت ہے کہ "إِمَامَهُمْ"سے مراد وہ خلیفہ(امام) ہے،جس کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہوچکا ہو اور اگر کسی پر پہلے سے ہی اختلاف ہوتو وہ اس حدیث میں مراد نہیں ہے لہذا فرقہ مسعودیہ جماعت المسلمین رجسٹرڈ کا اس حدیث سے ا پنی خود ساختہ ونوزائدہ "فرقی" مرادلینا غلط،باطل اور بہت بڑا فراڈ ہے۔
آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ کیا کسی ثقہ وصدوق امام محدث ،شارح یا عالم نے زمانہ خیر القرون،زمانہ تدوین حدیث اور زمانہ شارحین حدیث(پہلی صدی سے نویں صدی ہجری تک) میں اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ جماعت المسلمین سے خلافت مراد نہیں اور إِمَامَهُمْ سے خلیفہ مراد نہیں بلکہ کاغذی رجسٹرڈ جماعت اور اس کا کاغذی بے اختیار امیر مراد ہے؟اگر اس کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں ،ورنہ عامۃ المسلمین کو گمراہ نہ کریں۔مزید تفصیل کے لیے دیکھئے محترم ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ کی کتاب"الفرقة الجديدة"(24/ستمبر 2011ھ،جامعۃ الامام البخاری،مقام حیات سرگودھا)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب