السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
درج ذیل احادیث کی تخریج درکار ہے۔
1۔ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا اجْتَمَعَ ثَلاثَةٌ قَطُّ بِدَعْوَةٍ إِلا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لا تُرَدَّ أَيْدِيَهُمْ "
(جب بھی تین آدمی کسی دعا کے ساتھ اکٹھے ہوں تو اللہ پر یہ حق ہے کہ ان کے ہاتھوں کو خالی نہ لوٹائے۔)(بیہقی ۔شعب الایمان ۔ ابن اعدی(2/820)ابو نعیم فی الحلیہ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
2۔ "لا يجتمع ملأ فيدعو بعضهم ويؤمن بعضهم إلا أجابهم الله –
(جب بھی کچھ لوگ اکٹھے و کر دعا کرتے ہیں اور کچھ آمین کہتے ہیں تو اللہ ان کی دعا قبول فرماتاہے۔)(بیہقی ،طبرانی کبیر)7/22)حاکم (3/347)عن حبیب بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
3۔ "العلاء بن الحضرمي رضي الله عنه... ونَصب في الدعاء ، ورفع يديه ، وفعل الناس مثله حتى طلعت الشمس
البداية والنهاية خلافة ابي بكر ذكر ردة اهل البحرين ودعوتهم الي الاسلام"
(البدایہ النہایہ 6/328و طبع بیروت جز7جلد 3صفحہ 333، طبرانی صغیر : 392)مجمع الزوائد (9/376)اسی طرح کا مفہوم طبقات ابن سعد (4/363) میں ہے۔
4۔تفسیر روایت۔
"إذا فرغت من الصلاة المكتوبة فانصب إلى ربك في الدعاء وارغب إليه في المسألة يعطك"
(معالم التنزیل مع الباب التاویل 7/220، دوسرا نسخہ 4/503)
5۔اثر دعائے موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام
"{قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا} وقال ابن تيميه رحمة الله عليه وكان أحدهما يدعو والآخر يؤمن (فتاويٰ مصريه)"
"كان موسيٰ عليه السلام بن عمران :اذا دعا امن عليه هارون عليه السلام عن ابي هريرة رضي الله عنه"
(موسیٰ علیہ السلام جب دعا کرتے تو ہارون علیہ السلام آمین کہتے)
6۔فتوی ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ
"والاجتماع على القراءة والذكر والدعاء حسن"
(قرآءت ذکر اور دعا پر اکٹھا ہونا اچھا ہے)(مختصر فتاویٰ مصریہ صفحہ 93)(محمد صدیق ایبٹ آباد
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ابو احمد بن عدی الجرجانی (متوفی 365ج) نے کہا:
"عن زيد بن اسلم عن ابيه عن انس رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا اجْتَمَعَ ثَلاثَةٌ قَطُّ بِدَعْوَةٍ إِلا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لا تُرَدَّ أَيْدِيَهُمْ "
(الکامل فی ضعفاء الرجال ج2ص820)
حافظ ابو نعیم الاصبہانی(متوفی430ھ) نے کہا:
"حدثني زيد بن اسلم عن انس بن مالك رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا اجْتَمَعَ ثَلاثَةٌ قَطُّ بِدَعْوَةٍ إِلا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لا تُرَدَّ أَيْدِيَهُمْ " ، غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ زَيْدٍ ، لااعلم رواه الا حبيب عن هشام عنه"(حلیةالولیاء ج 3ص226)
تین آدمی کبھی اکٹھے نہیں ہوتے، پھر وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں مگر اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ انھیں نہ لوٹائے۔(یعنی تین آدمی جب بھی اکٹھے ہو کر دعا کرتے ہیں ۔تو اللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے رد نہیں کرتا)
بیہقی کی شعب الایمان اور کتاب الدعوات، دونوں میں مجھے یہ روایت تلاش بسیار کے باجود نہیں ملی۔(والعلم عند اللہ)
درج بالا دونوں سندوں کا دارومدار حبیب کاتب مالک پر ہے جس کے بارے میں امام ابن عدی نے فرمایا:" یضع الحدیث"وہ حدیث گھڑ تا تھا۔(ج2ص818)
ابو حاتم الرازی نے کہا:"یکذاب" وہ جھوٹ بولتا تھا۔(الجرح والتعدیل ج3ص100)
یعنی یہ روایت موضوع ہے۔
2۔امام طبرانی نے کہا:
"أخرجه الطبرَاني في " المعجم الكبير " (4 / 26 / 3536) : حدثنا بشر بن موسى: ثَنَا أبو عبد الرحمن المقرئ: ثَنَا ابن لهيعة: حدثني ابن هبيرة عن حبيب بن مسلمة الفهري - وكان مُسْتَجَاباً -: أنه أمِّرَ على جيش، فدرب الدروب، فلما لقي العدو؛ قال للناس: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول. . . فذكره. ثم إنه حمد الله وأثنى عليه فقال: اللهم! احقن دماءنا، واجعل أجورنا أجور الشهداء ". فبينما هم على ذلك إذ نزل (الهنباط) أَمِير العدو، فدخل على حبيب سرادقه. وقال الطبرَاني):الهنباط) بالرومية: صاحب الجيش ".(المعجم الکبیر ج4ص21،22،حدیث نمبر3536)
حاکم نیشاپوری (متوفی 405ھ) نے کہا:
"اخبرنا الشيخ الامام ابوبكر بن اسحاق:حدثنا بشر بن موسى: ثَنَا أبو عبد الرحمن المقرئ: ثَنَا ابن لهيعة: حدثني ابن هبيرة عن حبيب بن مسلمة الفهري.....الخ" (المستدرک ج3ص347)
بیہقی کی شعب الایمان ،الدعوات الکبری اور السنن الکبریٰ میں یہ روایت نہیں ملی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا پھر بعض دعا کرتے اور باقی سارے آمین کہتے ہیں تو اللہ ان کی دعا قبول کر لیتا ہے۔
یہ سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
تقریب التہذیب میں لکھا ہوا ہے کہ حبیب بن مسلمہ الفہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ 42ھ میں فوت ہوئے اور عبد اللہ بن ہبیرہ المصری 126ھ میں فوت ہوئے ان کی عمر 85سال تھی۔ یعنی وہ 41ھ میں پیدا ہوئے۔سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت وہ صرف ایک سال کے بچے تھے لہٰذا یہ سند منقطع ہے۔
3۔واقعہ العلاء بن الحضرمی۔
"العلاء بن الحضرمي رضي الله عنه... ونَصب في الدعاء ، ورفع يديه ، وفعل الناس مثله"
یہ واقعہ البدایہ والنہایہ (6ص333) میں بغیر کسی سند کے مذکورہے۔
المعجم الصغیر للطبرانی (ج1ص143)مجمع الزوائد (ج 9ص376)اور طبقات ابن سعد (ج4ص363)میں"ورفع يديه وفعل الناس مثله"کے الفاظ نہیں۔
العلاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا میں ہاتھ اٹھائے اور لوگوں نے( بھی )اسی طرح کیا۔
یہ روایت بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
4۔تفسیر معالم التنزیل للبغوی (ج4ص503سورۃ الانشراح)میں لکھا ہوا ہے کہ:
"قال ابن عباس ، وقتادة ، والضحاك ، ومقاتل ، والكلبي : فإذا فرغت من الصلاة المكتوبة فانصب إلى ربك في الدعاء وارغب إليه في المسألة يعطك "
یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، قتادہ ، ضحاک ، مقاتل اور کلبی کہتے ہیں کہ فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے رب سے دعا کرو۔وہ تیرا سوال (پورا کر کے) تجھے عطا کرے گا۔
یہ بلاسند اقوال ، تفسیر طبری(ج 30 ص151، 152)میں ضعیف سندوں سے مذکورہیں تفسیر طبری صفحہ 152پر ضعیف سند سے لکھا ہوا ہے کہ:
"الضَّحَّاك { فَإِذَا فَرَغْت فَانْصَبْ } يَقُول : مِنْ الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة قَبْل أَنْ تُسَلِّم , فَانْصَبْ"
یعنی " فَانْصَبْ " کا مطلب یہ ہے کہ فرض نماز سے فارغ ہوتے وقت سلام سے پہلے دعا کرو۔ لہٰذا ان اقوال غیر ثابتہ سے اجتماعی دعا کے قائلین کا مدعا پورا نہیں ہوتا۔
5۔ "قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا" کے سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول (مختصر الفتاوی المصر یہ ص93) محتاج دلیل ہے۔
عین ممکن ہے کہ ان کی دلیل تفسیر ابن کثیر (ج2ص445)وغیرہ کے آثار واقوال ہوں جو تفسیر طبری (ج11ص 110،111)تفسیر ابن ابی حاتم (ج6ص1980)اور تفسیر عبد الرزاق (ج1ص261حدیث 1171)میں ضعیف و غیر ثابت سندوں سے مذکور ہیں واللہ اعلم۔
"كان موسيٰ بن عمران اذا دعا امن عليه هارون"
تفسیر درمنثور (ج3ص315) میں بغیر سند کے ابو الشیخ (الاصبہانی )سے اور کنزالعمال (ج 2ص622حدیث 4914) میں بحوالہ عبد الرزاق منقول ہے۔ مصنف عبد الرزاق (ج2ص99ح 2651)میں یہی روایت:
"بشر بن رافع عن ابي عبدالله عن ابي هريره رضي الله عنه...الخ"
کی سند سے مذکور ہے۔ بشر بن رافع ضعیف الحدیث تھا۔
دیکھئے تقریب التہذیب (685)اور ابو عبد اللہ کی توثیق بھی ثابت نہیں ہے۔
لہٰذا یہ سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول :
"الاجتماع على القراءة والذكر والدعاء حسن إذا لم يتخذ سنة راتبة ولا اقترن به منكر من بدعة"
قرآءت ذکر اور دعاء پر اکٹھا ہونااچھا ہے بشرطیکہ اسے سنت راتبہ نہ سمجھا جائے اور نہ اس کے ساتھ کسی بری بدعت کا اضافہ کر دیا جائے۔(مختصر الفتاوی المصریہ ص92)کا تعلق بعض اوقات دعا سے ہے نہ کہ فرض نماز کے بعد کیونکہ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ خود لکھتے ہیں۔
"أما دعاء الإمام والمأمومين جميعا عقيب الصلاة فهو بدعة ، لم يكن على عهد النبي صلى الله عليه وسلم "
یعنی امام اور مقتدیوں کا نماز کے بعد اکٹھے ہو کر دعا کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا۔(الفتاوی الکبری ج1ص219طبع دارالمعرفۃ بیروت ،لبنان )
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص بغیر کسی التزام یا لزوم کے کبھی کبھار یہ دعا کر لیتا ہے تو عمومی کی روسے جائز ہے تاہم افضل یہی ہے کہ مسنون اذکار و تسبیحات پر اکتفاء کر کے اس "اجتماعی دعا"سے بچا جائے۔ واللہ اعلم (شہادت ، مئی 2001ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب