السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس حدیث کے بارے میں تحقیق درکار ہے الحدیث میں شائع کر کے عند اللہ ماجور ہوں۔
1۔لوگوں میں مشہور ہے کہ ایک حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں حاضر ہوا آپ نے اس کو حکم دیا کہ مدینہ میں ہی رہے وہ ایک مہینہ ٹھہرا رہا ایک مہینے کے بعد اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے پاس کوئی مریض نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں کے لوگ کھانا تب کھاتے ہیں جب ان کو سخت بھوک لگی ہوتی ہے اس لیے لوگ بیمار نہیں ہوتے۔
مہر بانی کر کے وضاحت فرمادیں کیا یہ بات درست ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر بہتان ہے۔(محمد رمضان سلفی خطیب جامع بیت المکرم اہلحدیث ، عارف والا)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت تلاش بسیار کے باوجود مجھے کہیں نہیں ملی۔
1۔جس روایت کی سند اور حوالہ نہ ہو وہ مردود و بے اصل کے حکم میں ہوتی ہےالایہ کہ کوئی شخص اس کی صحیح و حسن سند دریافت کر لے۔
2۔یحییٰ بن جابر الطائی(ثقہ /تابعی) فرماتے ہیں۔"
"روى الترمذي فيَنْ مِقْدَامِ ابْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مَلأ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ فَإِنْ كَانَ لا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ"
میں نے مقدام بن معدی کرب الکندی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:ابن آدم علیہ السلام نے پیٹ سے زیادہ برابرتن کوئی نہیں بھرا۔ابن آدم علیہ السلام کے لیے اتنے لقمے کافی ہیں جن سے اس کی پیٹھ سیدھی ہو جائے۔ اگر(پیٹ بھرنا) ضروری ہے تو تین حصے کرے،ایک تہائی کھانے کے لیے ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے۔
(مسند احمد ج4ص132ھ 17318وسندہ صحیح و صححہ الحاکم 4/331ح 7945دوافقہ الذہبی)
یہ روایت سنن الترمذی (2380 وقال : ھذا حدیث حسن صحیح)اور صحیح ابن حبان (موارد الظمان :1349الاحسان :673)میں بھی موجود ہے۔بعض لوگوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ یہ روایت یحییٰ اور سیدنا مقدام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان منقطع ہے لیکن یہ دعوی مسند احمد میں تصریح سماع کے مقابلے میں مردود ہے۔ نیز دیکھئے السلسلۃ الصحیحۃ للشیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ (5/337ھ 2265وارواءالغلیل (7/42ھ 1973)
اس روایت کو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے والحمد للہ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانا تھوڑا کھانا چاہیے۔ پیٹ بھرنے سے اجتناب بہتر اور افضل ہے۔ ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر (و منافق )سات آنتوں میں(یعنی بہت زیادہ ) کھاتا ہے۔دیکھئے صحیح البخاری (5394)وصحیح مسلم( 2061)
یاد رہے کہ بعض اوقات خوب پیٹ بھر کر کھانا بھی جائز ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کھانا کھایا"وشبو"اور پیٹ بھر کر کھایا۔
(صحیح البخاری :5381،کتاب الاطعمۃ باب من اکل حتی شبع صحیح مسلم : 2040)
نیز دیکھئے صحیح مسلم (2144 وترقیم دارالسلام: 6322)(الحدیث:19)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب