سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(311) سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی تدلیس

  • 21204
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1269

سوال

(311) سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی تدلیس

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کی تدلیس اور معنعن روایات کے بارے میں آپ کے نزدیک راجح قول کیا ہے؟(محمد محسن سلفی کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ (ثقہ امام فقیہ مجتہد امیر المومنین فی الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ )مدلس بھی تھے اور ضعفاء وغیرہم سے تدلیس کرتے تھے۔لہٰذا غیر صحیحین میں ان کی معنعن روایت عدم متابعت  وعدم تصریح سماع کی صورت میں ضعیف و مردود ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کا انھیں طبقہ ثانیہ میں شمار کرنا صحیح نہیں بلکہ وہ طبقہ ثالثہ کے فرد ہیں۔ جیسا کہ حافظ العلائی (صحیح یہ ہےکہ حاکم)نے انھیں طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔(دیکھئے جامع التحصیل ص99،اور نور العین ص 127،طبع جدید ص138)

حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"وأما المدلسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا، مثل الثوري والأعمش وأبي إسحق واضرابهم"

اور ایسے مدلس راوی جو ثقہ  عدل تھے تو ہم ان کی احادیث سے حجت نہیں پکڑتے سوائے اس کے کہ وہ تصریح سماع کریں جو انھوں نے روایت کیا ہے، مثلاً ثوری ، اعمش ، ابو اسحاق اور ان جیسے دوسرے ۔الخ۔

(الاحسان ج1 ص90وفیہ ثم بدل ہم دوسرا نسخہ ج1 ص161)

اور یہی تحقیق راجح و صحیح ہے۔راقم الحروف نے اسے نورالعین(طبع جدید ص134،138)اور التاسیس فی مسئلہ التدلیس (مطبوعہ ماہنامہ محدث  لاہورجنوری 1996ء ج 27 عدد 4،ماہنامہ الحدیث حضرو:33) میں اختیار کیا ہے۔

یاد رہے کہ عبد الرشید انصاری صاحب کے نام میرے ایک خط (19/1408ھ)میں سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں یہ لکھا گیا تھا۔

"طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کی تدلیس مصر نہیں ہے۔"(جرابوں پر مسح ص40)

میری یہ بات غلط ہے میں اس سے رجوع کرتا ہوں لہٰذا اسے منسوخ و کالعدم سمجھا جائے گا۔

عینی حنفی نے لکھا ۔"

"وسفيان من المدلسين والمدلس لا يحتج بعنعنته إلا أن يثبت سماعه من طريق آخر"

اور سفیان (ثوری)مدلسین میں سے ہیں اور مدلس کی عن والی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاتی الایہ کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔(عمدۃ القاری3/112)(شہادت، اپریل 2003ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ570

محدث فتویٰ

تبصرے