سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(296) نماز جنازہ میں سلام کیسے پھیریں

  • 21189
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1033

سوال

(296) نماز جنازہ میں سلام کیسے پھیریں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنا چاہیے یا صرف ایک طرف؟(ابو ثاقب محمد صفدرحضروی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنن نسائی (الصغریٰ 4/75ح1991ترقیم التعلیقات السلفیہ )میں سیدنا ابو امامہ  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ:

"السنة في الصلاة على الجنازة أن يقرأ في التكبيرة الأولى بأم القرآن مخافتة ، ثم يكبر ثلاثا ، والتسليم عند الآخرة "

نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ سراً (خفیہ)پڑھے پھر تین تکبیریں کہے اور آخر میں سلام پھیردے ۔ یہ روایت صحیح ہے اور امام نسائی کی السنن الکبریٰ (ج1ص644ح2116)میں بھی موجود ہے۔اسے ابن الملقن نے تحفۃ المحتاج (ح788)اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فتح الباری (3/204۔203)ح1335)میں صحیح کہا ہے۔

مصنف عبدالرزاق(ج3ص489، 4ح6428)اور مثقی ابن الجارود(ح 540واللفظ لہ)میں سیدنا ابو امامہ  بن سہل بن حنیف( رضی اللہ  تعالیٰ عنہ )سے اسی روایت میں آیا ہے کہ:

"السنة في الصلاة على الجنائز أن تكبر ، ثم تقرأ بأم القرآن ، ثم تصلي على النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم تخلص الدعاء للميت ولا تقرأ إلا في التكبيرة الأولى ثم  تسلم  في نفسه عن يمينه"

نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ توتکبیر کہے پھر سورۃ فاتحہ پڑھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود بھیجے، پھر خالصتاً میت کے لیے دعا کرے۔اور(فاتحہ کی)قرآءت صرف پہلی تکبیر میں ہی کرے پھر اپنی دائیں طرف خفیہ سلام پھیردے۔

اس روایت کی سند صحیح ہے۔ امام ابن شہاب الزہری نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ ابو امامہ اسعد بن سہل بن حنیف رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  صغار صحابہ میں سے تھے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا تھا مگر سنا کچھ نہیں۔(دیکھئے تقریب التہذیب ص39،واسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ 1/27تجرید اسماء الصحابۃج1ص10للذہبی

اورالاصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر ج1 ص97 القسم الثانی )

صحابی صغیر ہو یا کبیر اہل سنت کے راجح مسلک میں صحابہ کی مراسیل بھی صحیح و مقبول ہوتی ہیں۔دیکھئے اختصار علوم الحدیث ابن کثیر(ص58طبع دار السلام)تیسیرمصطلح الحدیث (ص 74)اور عام کتب اصول حدیث۔

محمد عبید اللہ الاسعدی (دیوبندی)نے لکھا ہے کہ:

"مرسل صحابی:جمہور کے نزدیک مقبول و لائق احتجاج ہے"الخ"(علوم الحدیث ص137بہ نظر ثانی و تفریظ :حبیب الرحمٰن اعظمیٰ دیوبندی)

امام ابن الجارود النیسابوری  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 307ھ)نے مثقی ابن الجارود میں اسے روایت کر کے صحیح قراردیا ہے۔

ایک روایت کے بارے میں اشرف علی تھانوی نے کہا:

 (ابن الجارود نے مثقیٰ میں یہ حدیث روایت کی لہٰذا یہ ان کے نزدیک صحیح ہے۔الخ)(بوادرالنوادر ص135)

ابو امامہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے یہ حدیث رجال ( یا رجل)من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنی تھی۔(الاوسط لابن المنذر ج5ص446،اثر 6187،السنن الکبری للبیہقی ج4ص40و معانی الآثار للطحاوی 1/500،المستدرک للحاکم 1/360)

اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔

صحابی اگر"من السنۃ"(سنت میں سے ہے)یا اس جیسے الفاظ کہے تو یہ مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔ دیکھئے تیسیرمصطلح الحدیث (ص132)اور عام کتب اصول الحدیث ۔

ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بھی محدثین (و علماء )کے نزدیک "السنۃ "کو مرفوع حدیث کے درجہ میں داخل کیا ہے۔

دیکھئے قوعد فی علوم الحدیث (ص126) اور اعلاء السنن (ج19ص126)

مختصر یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح بھی ہے اور مرفوع بھی ہے۔ اس حدیث سے امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذراالنیسابوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 318ھ)وغیرہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے۔کہ نماز جنازہ میں صرف دائیں طرف سلام پھیرنا چاہیے دیکھئے الاوسط(ج5ص448)

اس استدلال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

"عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ إذَا صَلَّى عَلَى الْجِنَازَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ فَكَبَّرَ , فَإِذَا فَرَغَ سَلَّمَ عَلَى يَمِينِهِ وَاحِدَةً"

 (المصنف ج3ص307ح11491)

یعنی ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  جب نماز جنازہ پڑھتے تو رفع یدین کرتے پھر تکبیر کہتے ، پھرجب (نماز سے)فارغ ہوتے تو اپنی دائیں طرف ایک سلام پھیرتے تھے(اس کی سند بالکل صحیح ہے)یہ سلام دائیں طرف پھیرنا چاہیے)

امام ابو حنیفہ کے استاد امام مکحول الشامی رحمۃ اللہ علیہ (تابعی)نماز جنازہ میں اپنی دائیں طرف ایک سلام پھیرا تھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ 3ج۔ص308،ح11506، ،وسندہ صحیح)

ابراہیم بن یزید الحنفی بھی نماز جنازہ میں ایک طرف (دائیں طرف )ایک سلام پھیرنے کے قائل تھے۔

(مصنف عبد الرزاق ج3ص493ح6445،ابن ابی شیبہ ج 3ص 307ح 11496وسندہ صحیح)

اس کی سند صحیح ہے۔

امام عبد اللہ بن المبارک  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنازے میں دوسلام پھیرتا ہے وہ جاہل ہے۔جاہل ہے۔(مسائل ابی داؤد ص154،وسندہ صحیح)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں صرف ایک اسلام اور دائیں طرف ہی پھیرنا چاہیے۔ یہی قول اکثر اہل علم کا ہے اور عبد الرحمٰن بن مہدی ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  واسحاق بن راہویہ وغیرہم سے مروی ہے۔ دیکھئے الوسط (ج5ص447)

حرمین( مکہ و مدینہ )میں اسی  پرعمل ہو رہا ہےوالحمد اللہ۔

جو لوگ دونوں طرف سلام پھیرنے کے قائل ہیں ان کے دلائل کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے۔

"وعن ابن أبي أوفى: «أنه كبر أربعا، ثم سلم عن يمينه، وعن شماله"

(السنن الکبری للبیہقی ج4 ص43)

اس روایت کی سند تین علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے۔

1۔ اس کا راوی ابراہیم بن مسلم الہجری ضعیف ہے اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ، امام سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ  اور جمہورمحدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔

دیکھئے تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیقی (ترجمہ:10)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"لين الحديث رفع موقوفات" (تقریب التہذیب ص27)

یعنی وہ روایت حدیث میں کمزور تھا ۔اس نے موقوف روایات کو مرفوع بیان کر دیا تھا۔

2۔شریک بن عبد اللہ القاضی کو امام دارقطنی وغیرہ نے مدلس قراردیا ہے۔

(طبقات المدلسین لا بن حجر 56المرتبۃ الثانیہ)

اگرچہ شریک  رحمۃ اللہ علیہ  تدلیس سے برات کا علان کرتے تھے اور"آپ کی تدلیس زیادہ نہیں ہے"(دیکھئے التبین الاسماء المدلسین لا بن العجمی ص33ت 33)

لیکن عین ممکن ہے کہ تدلیس التسویہ سے برات کا اعلان کرتے تھے۔رہا مسئلہ کم یا زیادہ تدلیس کا تو اس بارے میں راجح یہی ہے کہ جو شخص ساری زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی تدلیس کرے اس کی عن والی منفرد روایت غیر مقبول ہوتی ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"من عرفناه دلس مرة فقد أبان لنا عورته"

ہم نے جسے ایک دفعہ تدلیس کرتے ہوئے جان لیا تو اس کی حیثیت ہمارے سامنے واضح ہوگئی ۔(الرسالۃ ص379رقم 1033)

اور فرمایا:

"لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول فيه ؛حدثنى : او سمعت "

ہم نے کہا:ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے الایہ کہ وہ سماع کی تصریح کرے۔(ایضاً ص380رقم 1035)

نیز دیکھئے علوم الحدیث لا بن الصلاح (ص99نوع 12)

3۔ابراہیم بن مسلم الہجری سے یہ روایت شاگردوں کی ایک جماعت نے بیان کی ہے مگر کسی روایت میں دونوں طرف سلام پھیرنے کا ذکر نہیں۔

دیکھئے مسند احمد(4،356،383)سنن ابن ماجہ (1503،1592)مسند الحمیدی بتحقیقی (718)معانی الآثارللطحاوی (1/495)المستدرک للحاکم (360)

خود شریک القاضی سے ابو نعیم نے بغیر تسلیمتین کے روایت بیان کی ہے۔

معانی الآثار للطحاوی طبع مکہ مکرمہ(ج1ص495)و طبع کراچی پاکستان (ج1ص332)

مختصر یہ کہ یہ روایت کئی علتوں کی وجہ سے ناقابل حجت ہے۔ اسے شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی ضعیف قراردیاہے۔(احکام الجنائزص128)

تنبیہ:حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے اتحاف المہرۃ (ج2ص508ح6896)میں بحوالہ طحاوی بجائے شریک کے"اسرائیل "نقل کیا ہے واللہ اعلم)

2۔ "بحديث ابن مسعود : ( ثَلاَثُ خِلاَلٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَفْعَلُهُنَّ تَرَكَهُنَّ النَّاسُ ، إِحْدَاهُنَّ : التَّسْلِيمُ عَلَى الْجَنَازَةِ مِثْلَ التَّسْلِيمِ فِي الصَّلاَةِ "

(السنن الکبری للبیہقی ج4ص43،والمعجم الکبیر للطبرانی ج10،ص100،ح10022)

اسے حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  نے "رجالہ ثقات " مجمع الزوائد(3/34)

حافظ نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے"اسنادہ جید" کہا۔(المجموع شرح المہذب5/239)

شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے حسن قراردیا ہے۔ (احکام الجنائز ص127فقرہ 830)

یہ روایت بھی تین وجہ سے ضعیف ہے۔

1۔حماد بن ابی سلیمان آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (دیکھئے الطبقات الکبری لا بن سعد ج2ص333)

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ زید بن ابی انیسہ کا سماع حماد کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔

حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  بذات خود لکھتے ہیں کہ:

"ولا يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان الثورى والدستوائى ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الاختلاط"

"حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو اس سے قدیم شاگردوں :شعبہ سفیان الثوری اور(ہشام )اور الدستوائی نے بیان کی ہے۔ان (تینوں )کےعلاوہ سب لوگوں نے اس کے اختلاط کے بعد ہی روایت کی ہے۔مجمع الزوائد (1/119۔120)

2۔حماد بن ابی سلیمان مدلس تھے۔(طبقات المدلسین 45،المرتبۃ الثانیہ)

اور یہ روایت معنعن ہے۔

3۔ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ  بھی مدلس تھے۔

(ایضاً :35 المرتبۃ الثانیہ ابکارالمنن فی تنقید آثار السنن للشیخ عبد الرحمٰن المبارکپوری  رحمۃ اللہ علیہ  ص214)

اور یہ روایت معنعن ہے۔

میری تحقیق میں کسی ایک صحابی یا تابعی سے(سوائے ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ )باسند صحیح یا حسن نماز جنازہ میں دونوں طرف سلام پھیرنا ثابت نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ نماز جنازہ  میں صرف دائیں طرف سلام پھیرنا ہی راجح ہے۔

نماز جنازہ میں قراءت خفیہ (سراً ) بھی صحیح ہےاور جہراً بھی۔

دیکھئے سنن النسائی )ج4ص74،75ح 9189)و"جہر"مثقیٰ ابن الجارود(ح537)

ابن الجارود کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام جہراً  پڑھے گا اور مقتدی سراً(ح536)(شہادت،اپریل تا جون 2002ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الجنائز-صفحہ539

محدث فتویٰ

تبصرے